Archive for the ‘Palestine & Israel’ Category

لبنان کی پارلیمنٹ کے ایک رکن نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے شام میں بحران پیدا کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ شام میں اسرائیل نواز اور امریکہ نواز حکومت لانے کی تلاش و کوشش کررہا ہے۔المنار کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ لبنان کی پارلیمنٹ کے رکن نواف الموسوی نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے شام میں بحران پیدا کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ شام میں اسرائیل نواز اور امریکہ نواز حکومت لانے کی تلاش و کوشش کررہا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی مقاومت کی کامیابی شام کے حالات کو درک کرنے کی اصلی کلید ہے اس نے کہا کہ مقاومت نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو علاقہ میں شکست و ناکامی سے دوچار کیا ہے اور امریکہ اپنی  شکست و ناکامی کی تلافی کے لئے شام میں اسرائيل کی حامی حکومت لانے کی تلاش و کوشش کررہا ہے انھوں نے کہا کہ لبنان اور فلسطین میں اسلامی مقاومت کی کامیابی میں شام کا کلیدی کرداررہا  ہے اور امریکہ نے مقاومت کو شکست دینے کے لئے اب شام کو نشانہ بنایا ہے۔

مقبوضہ بیت المقدس:  اسرائیل نے عالمی القدس ملین مارچ کو عرب ممالک کے اندر سے گذرنے کی اجازت دینے اور اسے مقبوضہ فلسطین کی سرحد تک لانے میں معاونت پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ صہیونی حکومت کا کہنا ہے کہ القدس ملین مارچ کے پس پردہ “اسرائیل دشمن” قوتیں کار فرما ہیں۔مرکز اطلاعات فلسطین کے ذرائع کے مطابق اسرائیلی حکومت نے اردن، شام، لبنان اور مصر سمیت مختلف عرب اور اسلامی ممالک کو خطوط ارسال کیے ہیں جن میں کہا گیا کہ وہ اپنی سرزمین کو القدس ملین مارچ کے شرکا کو گذرنے کے لیے راستہ فراہم نہ کریں۔ ان خطوط میں خبردار کیا گیا ہے کہ صہیونی حکومت ملین مارچ کو اسرائیلی حدود کے قریب آنے سے روکنے کے لیے تمام اقدامات کرے گا۔ اسرائیل نے پڑوسی عرب ملکوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ القدس ملین مارچ کی راہ روکنے کے لیے سخت اقدامات کریں، کیونکہ یہ احتجاجی جلوس خطے میں ایک نئے کشیدگی کا محرک بن سکتا ہے۔دوسری جانب اسرائیلی فوجی ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ سیکیورٹی حکام نے بھی القدس ملین مارچ سے نمٹنے کے لیے تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ فوج کی مختلف یونٹوں کو مصر اور اردن کی سرحدوں پر تعینات کرنے سے قبل انہیں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے خصوصی تربیت کی فراہمی کے ساتھ ساتھ انہیں تمام جنگی ساز و سامان بھی فراہم کیا گیا ہے۔خیال رہے کہ القدس ملین مارچ کی منتظم کمیٹیوں نے بیت المقدس کے لیے قافلوں کو روانہ کرنے اور فلسطین کی سرحد پر جمع کرنے کے لیے 30 مارچ کی تاریخ مقرر کی ہے۔ القدس ملین مارچ کی منتظم اور رابطہ کمیٹیوں کا کہنا ہے کہ ان کے اس قافلے میں دنیا بھر کی 700 تنظیمیں اور 64ممالک کے عوام شرکت کریں گے۔ادھر دنیا کے سات میں سے چھ براعظموں میں سرگرم تنظیموں نے مقبوضہ بیت المقدس کی طرف ملین مارچ کی تیاریوں کو حتمی شکل دینا شروع کر دی ہے۔ اس سلسلے میں شہریوں کو زیادہ سے زیادہ شریک کرانے کے لیے صہیونی سفارت خانوں کے باہر احتجاجی مظاہرے بھی منظم کیے جا رہے ہیں

برسلز:  فلسطین کے مقبوضہ علاقے مغربی کنارے میں انتہا پسند یہودیوں کے فلسطینیوں پر حملوں میں تیزی کا ایک نیا ریکارڈ سامنے آیا ہے۔ یورپی یونین کے عہدیداروں کی جانب سے ایک رپورٹ تیار کی گئی ہے جسے انہوں نے اپنے تئیں خفیہ رکھا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ سنہ 2011 میں انتہا پسند یہودیوں نے مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقوں میں کم سے کم 411 حملے کیے جن میں ایک فلسطینی شہید، درجنوں زخمی اور بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کی املاک کو تباہ کیا گیا۔مرکز اطلاعات فلسطین کو یورپی یونین کے عہدیداروں کی جانب سے تیار کردہ اس رپورٹ کے اعدادوشمار ملے ہیں جن میں فلسطینیوں پر یہودی آبادکاروں کے حملوں کو”جارحانہ” قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2010 کی نسبت سنہ 11 میں یہودی آباد کاروں نے فلسطینیوں پر حملوں میں تین گنا اضافہ کیا۔ 2010 میں مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی املاک پرکل 132 حملے رجسٹرڈ کیے گئے تھے جبکہ گذشتہ برس رجسٹرڈ حملوں کی تعداد چار سو سے تجاوز کر گئی ہے۔یورپی عہدیداروں نے رپورٹ کی تیاری کے ساتھ ساتھ صہیونی سیکیورٹی حکام اور حکومت کے کردار کا بھی تجزیہ کیا ہے جس کے بعد کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت دانستہ طور پر انتہا پسند یہودیوں کی کارروائیوں پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ مغربی کنارے میں جہاں یہودی آباد کاروں کو ہرقسم کا تحفظ اور شہری سہولتوں کا حق حاصل ہے وہیں ، عربوں، فلسطینیوں اور غیریہودیوں کو بھی اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیلی حکومت اور فوج کی پالیسی سے ایسے لگتا ہے گویا وہ فلسطینیوں کے ساتھ دانستہ طور پر امتیازی سلوک کا مظاہرہ کر رہی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انتہا پسند یہودیوں نے گذشتہ ایک برس کے دوران مغربی کنارے میں بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کے مکانات پر حملے کر کے انہیں گرا دیا، فلسطینیوں کے فصلوں سے لہلاتے کھیت اجاڑ دیے گئے۔ کم سے کم ایک سال کے دوران زیتون کے دس ہزار درخت جڑوں سے اکھاڑ دیے گئے یا انہیں جلا دیا گیا۔دوسری جانب اسرائیلی انتظامیہ کے انصاف کا یہ حال ہے کہ اس نے فلسطینی شکایت کندگان کی شکایت پر کان دھرنے کے بجائے الٹا انہیں زد و کوب کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ فلسطینیوں کی نوے فی صد شکایات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔رپورٹ میں مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں کی تعداد اور ان کے فلسطینیوں پر حملوں کے بارے میں لکھا ہے کہ انتہا پسند یہودیوں تین لاکھ سے زیادہ ہے اور یہ 200 سے زیادہ مقامات میں ٹھہرائے گئے ہیں۔ یہودی آباد کار فلسطینیوں حملے کرتے رہتے ہیں لیکن اسرائیلی فوج اور پولیس اس وقت وہاں جاتے ہیں جب وہ فلسطینی جوابی کارروائی کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں انتہا پسند یہودیوں کو تو اپنی کارروائیوں کی کھلی چھٹی ہوتی ہے لیکن قابض اسرائیلیوں پر جب فلسطینی جوابی کارروائی کے تحت حملہ کرتے ہیں تو یہودی فوجی انتہا پسند یہودیوں کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں

مقبوضہ بیت المقدس:  اسرائیل کی ایک عدالت میں پیش کیے گئے ایک فلسطینی بچے “مجاہدانہ جرات”کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدالت کے جج کو بھی کھری کھری سنا دیں۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی عدالت “عوفر” میں پیش کیے گئے ایک کم سن بچے نے جج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکہا کہ”آپ ایک منظم گینگ اور دہشت گرد مافیا ہیں۔ ہم سے اسرائیل کوتسلیم کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے لیکن میں اسرائیل کو نہیں مانتا”۔مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی فوجی عدالت میں پیش کیے گئے سات فلسطینی بچوں پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ یہودی آباد کاروں اور اسرائیلی فوج کی گاڑیوں پر پتھر پھینکتے ہیں۔ اس پرعدالت نے جب بے سے اس کا موقف پوچھا تووہ اس نے نہایت اعتماد کے ساتھ جواب دیتے ہوئے کہا کہ “وہ اور اس کے دوست اسرائیل کی کسی عدالت کو مانتے ہیں اور نہ ہی اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں۔ بلکہ ہمارے نزدیک اسرائیل اور اس کے تمام ادارے “منظم گینگ” ہے جو فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے تیار کیا گیا ہے”۔ عدالت میں پیش کیے گئے تمام فلسطینی مقبوضہ الخلیل شہر کے شمال میں بیت امر سے گرفتار کیے گئے تھے۔فلسطینی انسانی حقوق کے ایک مندوب اور کلب برائے اسیران کے وکیل نے بتایا کہ اسرائیلی عدالت “عوفر”میں جس بچے نے جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ظالم جج کے سامنے کلمہ حق کہا اس کی احمد الصلیبی کے نام سے شناخت کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عوفرکی عدالت میں جب بچوں کو پیش کیا گیا تو عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل سے کہا کہ وہ ان محروس لڑکوں کے خلاف تیار کی گئی فرد جرم پڑھ کر سنائیں۔ ابھی ملٹری پراسیکیوٹر نے فرد جرم پڑھنا شروع کی تھی کہ ان میں سے ایک بچہ بول پڑا۔ اس نے کہا کہ میری عمر پندرہ سال ہے اور میں عالمی قوانین کی رو سے ابھی بچہ ہوں، میرا شعور اور وجدان یہ کہتا ہے کہ میرا اور میرے ساتھیوں کا ٹرائل ظالمانہ ہے، میں نہ عدالت کو مانتا ہوں اور نہ ہی اس کے فیصلے اور نہ صہیونی ریاست کو، کیونکہ یہ سب منظم مافیا اور دہشت گرد گینگ ہے۔عینی شاہدین نے بتایا کہ جب جج نے فلسطینی بچے کے یہ ریمارکس سنے توغصے سے آگ بگولا ہو گیا اور تمام بچوں کو دھمکیاں دیتا ہوا کمرہ عدالت سے نکل گیا اور کہا کہ میں تمہیں سخت ترین سزائیں سناؤں گا۔ خیال رہے کہ احمد الصلیبی کو رواں بارہ تاریخ کو الخلیل میں بیت امر کے مقام سے حراست میں لیا گیا تھا۔ گرفتاری کے بعد اسرائیلی فوج نے اس پر ظالمانہ تشدد کیا ہے اور اسے ہولناک اذیتیں دی گئیں۔ تاہم اس نے تمام تر مظالم سہتے ہوئے صہیونی مجرم کے سامنے کلمہ حق کہہ کر فلسطینیوں کے سر فخر سے بلند کر دیے ہیں

قلقیلیہ :  فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر قلقیلیہ میں فلسطینیوں کے اسرائیل کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران صہیونی فوج کے تشدد کے نتیجے میں جنوبی افریقہ اور پرتگال کے سفیروں سمیت دسیوں غیرملکی اور مقامی شہری زخمی ہو گئے۔مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق گزشتہ روز د مغربی کنارے کے شمالی شہر قلقیلیہ میں کفرقدوم کے مقام پر فلسطینیوں نے اسرائیلی مظالم، یہودی آباد کاری انتہا پسندوں کے حملوں اور نسلی دیوارکے خلاف ایک ریلی نکالی۔ احتجاجی ریلی میں جنوبی افریقہ اور پرتگال کے فلسطین میں متعین سفیروں سمیت کئی غیرملکی شہریوں نے شرکت کی۔ مظاہرے کے شرکا میں کئی افراد کا تعلق یورپی ملکوں سے بھی تھا۔قلقیلیہ کے وسط سے نکلنے والی احتجاجی ریلی شہر کے کئی سال سے بند داخلی دروازے کی طرف بڑھی، لیکن وہاں پر تعینات صہیونی فوج نے ریلی پراشک آور گیس کے گولے پھینکے جس کے نتیجے میں کئی غیرملکی شہریوں سمیت درجنوں افراد زخمی ہو گئے۔ زخمیوں میں رام اللہ میں متعین جنوبی افریقہ اور پرتگال کے سفیروں کے علاوہ ایک فرانسیسی انسانی حقوق کی خاتون سماجی کارکن بھی زخمی ہو گئیں۔ادھر گزشتہ روز بلعین میں بھی ایک احتجاجی ریلی پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ اور اشک اور گیس کی شیلنگ سے کئی بچوں اور خواتین سمیت ایک درجن افراد زخمی ہو گئے۔ آنسوگیس کے شیل لگنے سے زخمی اور زہریلی گیس کے باعث متاثر ہونے والے شہریوں کو فوری طبی امداد دی گئی تاہم تمام زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر بیان کی جاتی ہے

نابلس :  فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیم نے پنتیس روز سے اسرائیلی عقوبت خانے میں بھوک ہڑتال جاری رکھنے والی فلسطینی اسیرہ ھنا الشلبی کی ابتر صحت کے متعلق خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ الشلبی اپنی نازک حالت کے باعث کسی بھی وقت موت کے منہ میں جا سکتی ہیں۔ گزشتہ برس حماس اور اسرائیل کے مابین تبادلہ اسیران معاہدے کے تحت رہائی پا کر دوبارہ گرفتار کی جانے والی ھنا الشلبی نے بغیر کسی فرد جرم کے اپنی چار ماہ کی انتظامی حراست کے خلاف بھوک ہڑتال شروع کر رکھی ہے۔ مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیم نے اپنی حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ اسیرہ کی زندگی شدید خطرے میں ہے اور وہ کسی بھی وقت موت سے ہمکنار ہو سکتی ہیں۔ ان کی دل کی دھڑکنیں انتہائی کمزور ہو چکی ہیں۔ جگر نے کام کرنا بند کر دیا،نظام انہضام تباہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے خون بھی زہر آلود ہوچکا ہے۔ فلسطین میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے اسیرہ ھنا الشلبی اور انتظامی بنیادوں پر حراست میں رکھے گئے تمام افراد کو فی الفور رہا کرنے کا مطالبہ کیا اور زیر حراست افراد کی زندگیوں کی ذمہ داری بھی اسرائیلی حکومت اور جیل انتظامیہ پر عائد کی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ریڈ کراس سے بھی اسرائیلی حکام پر بے گناہ فلسطینی اسیرہ کی رہائی کا دباؤ بڑھانے کا مطالبہ کیا

واشنگٹن: امریکہ کے قانون سازوں نے فلسطین کے لیے چھ ماہ سے بند کی گئی8 کروڑ80 لاکھ ڈالر سے زائد کی ترقیاتی امداد جاری کر دی ہے۔یہ اقدام امریکی ایوانِ نمائنداگان کے دو سینیئر ریپبلیکن ارکان کی جانب سے امداد کی بحالی پر مخالفت واپس لینے کے بعد کیا گیا ہے۔ان میں سے ایک الیانا روز لیہٹینن کا کہنا تھا کہ یہ رقم غزہ کی پٹی کا جانب نہیں جانی چاہئیے، جس کا انتظام حماس کے پاس ہے۔تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ باقی پانچ کروڑ اسی لاکھ کی امداد بند رکھیں گی۔ایک خط میں انہوں نے کہا کہ انہیں خدشہ تھا کہ یہ امداد عسکریت پسندوں کے ہاتھوں استعمال ہو سکتی ہے۔الیانا روز لیہٹینن امریکی امورِ خارجہ کی کمیٹی کی سربراہ ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ وہ آٹھ کروڑ اسی لاکھ ڈالر سے زائد کی یہ امداد اس اتفاقِ رائے کے ساتھ جاری کر رہی ہیں کہ فلسطینی حکومت اسے مغربی کنارے میں سڑک کی تعمیر، تجارت اور سیاحت کے فروغ کے لیے استعمال کرے گی۔یہ امداد فلسطین میں صحت، پانی کے منصوبے اور خوراک کی فراہمی کے لیے استعمال کی جانی ہے۔امریکی قانون سازوں نے فلسطین کی امداد اس وقت بند کر دی تھی جب فلسطین نے گذشتہ سال ستمبر میں اقوامِ متحدہ میں مستقل رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں فلسطینی درخواست پر کوئی معاہدہ نہیں ہوسکا تھا۔امریکہ نے اعتراض کیا تھا کہ فلسطینی درخواست کی باعث امریکی قیادت میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ تاہم اوباما انتظامیہ نے امداد روکے جانے پر تنقید کی تھی

فلسطین میں مسجد اقصیٰ کی تعمیرو مرمت کی ذمہ دار تنظیم” اقصیٰ فاؤنڈیشن” نے قبلہ اول کی دیوار براق کی تاریخ مسخ کرنے کی ایک نئی صہیونی سازش کا انکشاف کیا ہے۔ اقصیٰ فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل میں سرگرم ایک انتہا پسند یہودی گروپ نے امریکا کے شہر نیویارک کی بروکیلن کالونی میں قائم میوزیم میں دیوار براق جسے یہودی دیوار مبکی کے نام سے جانتے ہیں کا ایک قوی ہیکل مجسمہ نصب کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بدھ کے روز دیواربراق کے اس نام نہاد مجسمے کی تنصیب کی افتتاحی تقریب کے موقع پر اسرائیل کا ایک وزیر بھی موجود تھا۔ اقصیٰ فاؤنڈیشن نے انتہا پسند یہودیوں کی جانب سے دیوار براق کے ڈھانچے کی امریکا میں تنصیب کو مسجد اقصیٰ کی تاریخ مسخ کرنے کی ایک سنگین سازش قرار دیا ہے۔ اقصیٰ فاؤنڈیشن و ٹرسٹ کی جانب سےجاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل دیوار براق کو مسجد اقصیٰ کا حصہ قرار دینے کے بجائے اسے قبلہ اول سے الگ اور مذموم ہیکل سلیمانی کا حصہ قرار دینے کی مہم چلا رہا ہے۔ امریکا میں یہودی گروپ کی جانب سے دیوار براق کا ہیکل تعمیر کر کے مسجداقصیٰ کی تاریخ اور حقیقت کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بیان میں کہاگیا کہ دیواربراق مسجد اقصیٰ کا تاریخی حصہ ہے۔ اسرائیل اور یہودیوں کے اس پر دعوے قطعی بے بنیاد اور خرافات ہیں، جن میں ذرا برابر بھی صداقت نہیں ہے۔

فلسطین کے محصور شہر غزہ کی پٹی میں ادویہ کا ایک نیا بحران پیدا ہوا ہے۔ غزہ وزارت صحت کی رپورٹ کےمطابق اسپتالوں میں 386 اقسام کی بنیادی اور عام ضرورت کی ادویہ ناپید ہو چکی ہیں۔ فلسطین کےمطابق وزارتِ صحت کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں سرکاری اسپتالوں اور غیرسرکاری ڈسپنسریوں میں ادویہ کی قلت کے باعث مریضوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ بیان میں بتایا گیا ہے کہ شہر میں بنیادی ضرورت کی 186 دوائیاں اور علاج معالجے کے استعمال ہونےو الی 200 دیگر اشیاء مکمل طورپر ختم ہو چکی ہیں ، جس کے بعد مریضوں اور طبی عملے سب کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ 70 ادویات اور 75 دیگر طبی سامان گذشتہ تین ماہ سے ختم ہے۔ بیرون ملک سے آنے والی ہنگامی طبی امداد میں بھی یہ ادویات نہیں لائی جا سکی ہیں۔ گذشتہ ماہ ادویات کی شدید قلت کے بعد اسپتالوں کو 347 اقسام کی دوائیوں کی قلت کا سامنا تھا جبکہ اس ماہ یہ تعداد بڑھ کر 386 تک جا پہنچی ہے، جو شہرمیں ادویات کی قلت کے سنگین بحران کا واضح ثبوت ہے۔ غزہ کی پٹی میں وزارت صحت کی جانب سے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں، ریڈ کراس، اقوام متحدہ،ترکی کی حکومت اور مصری حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں فوری طبی امداد کی فراہمی کویقینی بنائیں ورنہ شہر میں نیا انسانی المیہ رونما ہو سکتا ہے۔ خیال رہے کہ اسرائیل کی جانب سےغزہ کی پٹی کے گذشتہ چھ سال سے جاری معاشی محاصرے کے باعث شہر میں ادویہ کی آمد وترسیل میں سنگین مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ گذشتہ پانچ برسوں سے معاشی ناکہ بندی اور ادویہ کی قلت کے باعث سیکڑوں زندگیوں کے چراغ بجھ چکے ہیں۔ شہر میں نہ صرف ادویہ کی قلت ہے بلکہ اسرائیلی حکام کی جانب سے فلسطینی مریضوں کو دوسرے شہروں میں علاج کے لیے جانے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی۔

ذرائع انرجی اور قدرتی وسائل کے حکام کا کہنا ہے کہ رفح کراسنگ کے ذریعے آنے والی مصری ایندھن کی وصولی اور استعمال کے لیے تمام تکنیکی امور پر کام مکمل ہو چکا ہے۔ مصر کے ساتھ معاہدے کے بعد کئی ہفتوں سے ایندھن اور بجلی کی کمی کے شکار غزہ کے بجلی گھر کا دوبارہ کام شروع کر دے گیا۔ محکمہ انرجی کے میڈیا ڈائریکٹر احمد ابو العمرین نے بدھ کے روز اپنے بیان میں بتایا کہ مصر کے ساتھ واقع رفح کی سرحدات پر واقع کراسنگ سے آنے والے وفد کے استقبال کی تیاریاں مکمل کی جا چکی ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مصری حکومت قیدیوں کے مسائل کا مداوا جلد از جلد کریں گع۔ ابوالعمرین نے مصر سے آنے والے ایندھن کی آمد میں تاخیر کی وجہ کے متعلق پوچھے گئے سوال پر بتایا کہ اس بارے میں ان کے پاس معلومات نہیں، یہ سوال مصر سے کیا جانا چاہیے جس کے متعلق ہمیں امید ہے کہ وہ اب سرعت رفتاری سے غزہ کو ایندھن فراہم کرے گا۔ انہوں نے بتایا کہ غزہ کے بجلی گھر میں ایک جنریٹر چل رہا ہے اس کو انتہائی قلیل مقدار میں ایندھن فراہم کیا جاتا رہے گا تاہم جیسے ہی مصر سے کیے گئے معاہدے تکے تحت تیل غزہ پہنچے گا غزہ میں بجلی کا بحران ختم ہو جائے گا۔ قبل ازیں پیر کی شام غزہ میں محکمہ برقیات نے اعلان کیا تھا کہ اس کا مصر کے ساتھ بجلی گھروں میں استعمال کے لیے مصر سے پٹرول کی درآمد کا معاہدہ ہو گیا ہے۔ خیال رہے کہ غزہ میں گزشتہ کئی ہفتوں سے آئل کی کمی کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں کمی کے سبب شدید بحران کی کیفیت ہے۔

نامعلوم مسلح افراد نے مصر کے جزیرہ نما سیناء سے اسرائیل اور اردن کے لیے گیس سپلائی کرنے والی پائپ لائن کو ایک سال میں تیرہویں مرتبہ تباہ کر دیا ہے۔ مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق مصری ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ گیس پائپ لائن میں دھماکہ اسرائیل اور مصرکے درمیان سرحد پر طبل کے مقام پرپیش آیا، جہاں کچھ ہی روزقبل ایک دھماکے میں گیس پائپ لائن کو اڑایا گیا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق پیر اور منگل کی درمیانی شب ہونے والے اس دھماکے کے نتیجے میں آگ کے پچاس میٹر بلند شعلے اٹھتے دیکھے گئےہیں۔ واقعے کے فوری بعد گیس فراہم کرنے والی کمپنی “گیسکو” شہری دفاع،فائربرگیڈ اور سیکیورٹی فورسزکے اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور کئی گھنٹے کی کوشش کے بعد آگ پر قابو پالیا۔ خیال رہے کہ مصر سے اسرائیل کو فراہم کردہ گیس کی پائپ لائن کو گذشتہ ایک سال کے دوران کئی مرتبہ دھماکوں سے تباہ کیا جاتا رہا ہے۔ گذشتہ پانچ فروری کو اسی مقام پر ہونے والے دھماکےکے بعد پائپ لائن کی سیکیورٹی مزید سخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، تاہم سخت سیکیورٹی کے باوجو دنامعلوم مسلح افراد پائپ لائن کو دھماکوں سے اڑا رہے ہیں۔

واشنگٹن: بھارت نے رشوت سکینڈل میں اسرائیل کی اسلحہ ساز فرم ملٹری انڈسٹریز لمیٹڈ سمیت چھ فرموں پر دس سال کیلئے پابندی عائد کر دی۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے خبر رساں ادارے کے حوالے سے بتایا کہ بھارت نے اسرائیل کی سرفہرست اسلحہ بنانے والی فرم اسرائیل ملٹری انڈسٹریز لمیٹڈ کو دس سال کیلئے بلیک لسٹ کر دیا۔ بھارتی وزارت دفاع کی اسرئیلی فرم پر دس سال کے پابندی کے فیصلے پر اسرائیل ششدر اور پریشان ہوگیا ہے۔ بھارت نے اپنے ملک کے علاوہ سوئٹزر لینڈ، روس اور سنگاپور کی پانچ فرموں کو بلیک لسٹ کیا ہے۔ بھارت نے ان فرموں پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے معاہدہ حاصل کرنے کیلئے بھارتی اہلکار کو رشوت دی۔ اسرائیلی وزارت دفاع نے بھارتی الزامات کے خلاف اپنی فرم کے موقف کو بہترین قرار دیا اور کہا کہ بھارتی پابندی کا جواب دینے کیلئے وہ فرم سے مشاورت کرے گا۔ اسرائیلی دفاعی کمپنیوں کیلئے بھارت ایک اہم ترین مارکیٹ ہے۔ بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق دو ہزار نو میں رشوت اسکینڈل میں ملوث ہونے پر بھارت نے چھ فرموں پر دس برس کیلئے پابندی عائد کر دی ہے۔ بھارت نے اپنی دو فرموں پر بھی پابندی عائد کی ہے، ان فرموں پر پابندی سی بی آئی کی طرف سے ٹھوس ثبوت فراہم کرنے بعد بھارتی وزارت دفاع نے عائد کی۔ بھارت نے دو ہزار نو میں سات فرموں سے 1.5 ارب ڈالر کا معاہدے کو اس وقت روک دیا تھا جب پولیس نے وزارت دفاع کے اہم عہدے دار کو ان فرموں سے رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا۔

اگر ایران اور اسرائیل کے مابین جنگ ہوتی ہے تو کیا غزہ میں برسر اقتدار جماعت حماس اس سے کنارہ کش رہے گی، اس بارے میں اس جماعت کے متضاد بیانات سامنے آئے ہیں۔ بدھ کے روز حماس کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت جنگی لحاظ سے اس قدر طاقتور نہیں ہے کہ کسی علاقائی جنگ کا حصہ بن سکے۔ اس کے برعکس حماس کے ایک سینئر عہدیدار کا بعدازاں مبینہ طور پر کہنا تھا، ’’(اسرائیل کے خلاف) انتہائی طاقت کے ساتھ جوابی کارروائی کی جائے گی۔‘‘ یہ تبصرے ان قیاس آرائیوں کے بعد سامنے آئے ہیں کہ اسرائیل ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے اُس کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کر سکتا ہے۔ اس طرح کے خدشات رواں ہفتے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دورہ واشنگٹن کے دوران دیے جانے والے بیانات کے بعد پیدا ہوئے تھے۔حماس کے ایک ترجمان فوزی برحوم کا ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارے پاس بہت ہلکے ہتھیار ہیں، جن کا مقصد دفاع کرنا ہے نہ کہ حملہ۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’محدود ہتھیار ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ہم کسی بھی علاقائی جنگ کا حصہ بنیں۔ حماس کی اعلیٰ ترین فیصلہ ساز کمیٹی کے رکن صلاح البردویل نے بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔ تاہم بدھ کی شام ایران کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی فارس نیوز نے حماس کے ایک سینئر عہدیدار محمود الزھار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا، ’’ایران کے خلاف صیہونی جنگ میں حماس انتہائی طاقت کے ساتھ جوابی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں ہے۔‘‘ان بیانات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اس معاملے میں حماس تنظیم میں دراڑیں پیدا ہو چکی ہیں لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ ایران کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کونسی پالیسی غالب رہے گی۔ اسرائیل خیال کرتا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے ہے جبکہ ایران کا اصرار ہے کہ اس کا پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے حالیہ بیانات کے تناظر میں یوں لگتا ہے کہ وہ ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملے کا متمنی ہے جبکہ امریکی صدر باراک اوباما کی رائے میں یہ مسئلہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں اور مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے تاہم امریکی صدر نے یہ بھی نہیں کہا کہ امریکی مفادات کی حفاظت کے لیے ملٹری آپریشن نہیں کیا جائے گا۔اسرائیلی فوجی عہدیداروں کی نظر میں ایران اور اسرائیل کے تنازعے میں ایران کے اتحادی (غزہ میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ) اس پر حملہ کر سکتے ہیں۔ اسرائیل کی ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کے دشمنوں کے پاس دو لاکھ کے قریب راکٹ اور میزائل موجود ہیں، جو ان کے ملک کے تمام حصوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ ایران پر اسرائیلی حملے کی صورت میں حزب اللہ کا رد عمل کیا ہو گا؟ گزشتہ ماہ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ حملے کی صورت میں ایران حزب اللہ سے جوابی کارروائی کرنے کا نہیں کہے گا۔

اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2011 میں فلسطینیوں پر یہودیوں کے ہفتہ وار حملوں میں گذشتہ سال کی نسبت 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔العالم نیوز چینل کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے مقبوضہ فلسطین میں یہودی مہاجرین کی جانب سے مقامی فلسطینی شہریوں کے خلاف شدت پسندی کے واقعات پر مبنی جارہ کردہ تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 80 شہر ایسے ہیں جہان مقیم اڑھائی لاکھ فلسطینی شہری یہودی مہاجرین کی جانب سے شدت پسندانہ اور دہشت گردانہ اقدامات کی زد میں ہیں۔ ان میں سے 76 ہزار فلسطینی شہری ایسے ہیں جنکو یہودی مہاجرین کی جانب سے شدید خطرہ لاحق ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہودی مہاجرین کی جانب سے فلسطینیوں پر ہفتہ وار حملوں کی تعداد میں جن میں انکا جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے موجودہ سال 2011 میں گذشتہ سال کی نسبت 40 فیصد اضافہ جبکہ 2009 کی نسبت 165 فیصد دیکھنے کو ملا ہے۔ بدھ کے روز اقوام متحدہ کے انسانی امور سے متعلق دفتر “اوچا” کی جانب سے جاری ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہودی مہاجرین کی جانب سے دہشت گردانہ اقدامات نے مقبوضہ فلسطین میں فلسطینی شہریوں کی جان، مال اور معیشت کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ یہودی مہاجرین کے شدت پسندانہ اقدامات قتل و غارت، فلسطینیوں کے اموال کی تخریب اور ان پر ناجائز قبضہ، انہیں اپنے کھیتوں میں جانے سے روکنے، انکی فصلوں پر حملہ کرنے اور انکے مویشیوں کو نقصان پہنچانے پر مشتمل ہیں۔اس رپورٹ میں ان شدت پسندانہ اقدامات کی ترویج اور اضافے کی ذمہ داری اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم پر عائد کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران ایسے یہودی مہاجرین کی جانب سے کثرت کے ساتھ شدت پسندانہ اقدامات دیکھنے کو ملے جو غیرقانونی اجتماعات میں شریک تھے۔ یہ اجتماعات حکومت کی جانب سے اجازت لئے بغیر فلسطینی شہری علاقوں میں تشکیل پائے تھے۔ 2008 کے بعد یہودی بستیوں کے مکینوں نے فلسطینی شہریوں اور انکے اموال کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ وہ ان اقدامات کے ذریعے حکومت کو بلیک میل کرتے ہیں اور اسے غیرقانونی اجتماعات کو ختم کرنے سے روکتے ہیں۔ یہ شدت پسندانہ اقدامات “انتقام گیری” نامی جامع منصوبے کے تحت عمل میں لائے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2011 میں دس ہزار سے زیادہ درخت جن میں سے اکثر زیتون کے درخت تھے اور فلسطینی شہریوں سے متعلق تھے یہودی مہاجرین کے ہاتھوں اکھاڑ پھینکے گئے۔ یہ اقدام سینکڑوں فلسطینی شہریوں کی معیشت کو شدید نقصان پہنچانے کا باعث بنا۔ رپورٹ میں یہودی مہاجرین کی جانب سے ان شدت پسندانہ اقدامات کی اصلی وجہ اسرائیل کی پالیسیوں کو بیان کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ حکومت نے غیرقانونی طور پر یہودی مہاجرین کو فلسطینی شہریوں کی سرزمین پر قبضہ کرنے میں مدد کی ہے اور انکی تشویق بھی کی ہے۔ اسرائیلی حکومت نے ایسے قوانین بنائے ہیں جو یہودی مہاجرین کے حق میں اور کرانہ باختری میں مقیم 25 لاکھ فلسطینی شہریوں کے نقصان میں ہیں۔ دوسری طرف فلسطینی شہریوں کی زمین پر یہودی مہاجرین کے ناجائز قبضے کو قانونی بنانے کی حکومتی کوششیں بھی شدت پسندی میں خاطرخواہ اضافے کا باعث بنی ہیں۔اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی شہریوں کی جانب سے یہودی مہاجرین کے خلاف 90 فیصد مقدمات کی پیروی نہیں کی گئی اور کسی قسم کی عدالتی کاروائی سے گریز کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں تاکید کی گئی ہے کہ اسرائیل کے قانون نافذ کرنے والے ادارے یہودی مہاجرین کے خلاف کسی قسم کی قانونی کاروائی کرنے میں بری طرح ناکامی کا شکار ہیں اور انکی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف شدت پسندانہ اقدامات کو نہیں روک پائے۔ یہودی مہاجرین کے خلاف قانونی کاروائی نہ ہونے کی ایک اور بنیادی وجہ وہ قانون ہے جسکے مطابق فلسطینی شہری پابند ہیں کہ وہ ایف آئی آر کیلئے یہودی بستیوں میں موجود پولیس اسٹیشنز سے رجوع کریں جہاں تک رسائی ان کیلئے بالکل ممکن نہیں۔ رپورٹ کے مطابق جون 2011 میں 127 افراد نے یہودی مہاجرین کی جانب سے مسلسل حملوں سے تنگ آ کر اپنا آبائی علاقہ ترک کر دیا اور دوسرے علاقوں کی جانب نقل مکانی کر لی۔ یہودی مہاجرین کے حملوں کا نشانہ بننے والے افراد کا نقل مکانی کر جانا انکے اہلخانہ پر انتہائی منفی اثرات کا باعث بنتا ہے۔ یہ اثرات جو معاشرتی، معیشتی، احساساتی اور مادی حوالے سے ظاہر ہوتے ہیں لمبی مدت تک ان کیلئے خطرے کا باعث ہیں۔ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں تاکید کی گئی ہے کہ اسرائیلی حکام انسانی حقوق کے تقاضوں اور بین الاقوامی قوانین کی رو سے یہودی مہاجرین کی جانب سے فلسطینی شہریوں کے خلاف شدت پسند اور دہشت گردانہ اقدامات کو روکنے کے پابند ہیں۔ اسی طرح انکا قانونی وظیفہ بنتا ہے کہ وہ اب تک انجام پانے والے تمام دہشت گردانہ اقدامات کی تحقیقات کروائیں اور فلسطینی شہریوں کا ہونے والا نقصان پورا کریں۔

دمشق : شام کے صدر بشار الاسد نے اپنے فوجی سربراہوں کو حکم دیا ہے کہ اگر بیرون ملک سے شام میں کوئی فوجی مداخلت کی جاتی ہے تو فوری طور پر اسرائیل پر میزائلوں کی بارش کر دی جائے اور خاص طور پر اس کے فوجی ہوائی اڈوں کو نشانہ بنایا جائے۔ اردن کی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق یہ حکم انہوں نے چند روز قبل ایک خفیہ اجلاس میں دیا جس میں شام کی فوج کے سربراہوں اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ رپورٹ کے مطابق دمشق میں ایک خصوصی آپریشن روم بھی قائم کر دیا گیا ہے جو 24 گھنٹے صورتحال پر نظر رکھے گا اور اس آپریشن روم میں شام کے ساتھ ساتھ ایران کے افسران اور حزب اللہ کے نمائندوں کو بھی رکھا گیا ہے جو کسی بھی بیرونی فوجی مداخلت کی صورت میں مشترکہ آپریشن کرینگے۔ رپورٹ کے مطابق اسی قسم کا ایک آپریشنز روم تہران میں بھی کھولا گیا ہے جس میں ایرانی حکام اور حزب اللہ کے نمائندوں کو رکھا گیا ہے حزب اللہ نے بھی تمام تر صورتحال پر نظر رکھنے کے لیے لبنان میں آپریشن روم قائم کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایران اور حزب اللہ نے شامی حکومت کو یقین دلایا ہے کہ شام کے خلاف کسی بھی مداخلت پر اسرائیل کے خلاف ہرممکن کارروائی کی جائے گی۔ ادھرشام میں بین الاقوامی امدادی تنظیم ریڈ کراس حمص شہر کے تباہ حال ضلع بابا عمرو تک رسائی حاصل کرنے میں تیسری مرتبہ بھی ناکام ہو گئی ہے تاہم اس نے وہاں سے باہر آنے والے افراد کو امداد پہنچانا شروع کر دی ہے۔ تنظیم کا کہنا تھا کہ اس نے بابا عمرو سے بھاگے ہوئے افراد میں کھانے پینے کی اشیا اور کمبلوں کی تقسیم شروع کی ہے۔ادھرچین نے شام کی حکومت اور حزبِ مخالف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تشدد ختم کریں اور بحران کا پرامن حل تلاش کریں۔چین کی وزارتِ خارجہ سے جاری ایک بیان میں صدر بشار الاسد کی حکومت اور باغیوں سے کہا ہے کہ وہ بغیر کسی شرائط کے مذاکرات شروع کریں جن کی سربراہی کوفی عنان کر رہے ہیں۔ جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ شام کے شہر حمص سے باغی فورسز کے پیچھے ہٹنے کے بعد حکومتی فورسز شہریوں پر تشدد کر رہی ہیں اور اس حوالے سے انہیں ’ہیبت ناک رپورٹیں‘ موصول ہوئی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ شام کے متاثرہ شہروں تک امدادی اداروں کو غیرمشروط رسائی دی جائے۔ادھرشام کے جنوبی قصبہ ڈیرا میں خودکش کار بم دھماکے کے نتیجے میں کم سے کم 7 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ شام کی سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق شام کے جنوبی علاقے میں دہشت گرد خودکش بمبار نے کار کو دھماکے سے اڑا لیا جس سے کم سے کم 7 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ عینی شاہدین کے مطابق سفید رنگ کی کار ملٹری چیک پوسٹ کے قریب دھماکے سے اڑا دی گئی جس سے اردگرد گھروں اور دفاتر میں کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔

واشنگٹن … امريکي صدر بارک اوباما نے اسرائيل پر زور ديا ہے کہ وہ ايران پر پيشگي حملے کي سوچ کونظرانداز کردے.اسرائيلي وزيراعظم سے ملاقات سے ايک روز قبل اسرائيلي نواز امريکي لابي کے ايک گروپ سے خطاب ميں امريکي صدر کا کہنا تھا کہ امريکہ اور اسرائيل کا خيال ہے کہ ايران کے پاس جوہري ہتھيار نہيں ہيں. اور ہم ان کے جوہري پروگرام کي نگراني ميں حد سے زيادہ چوکس ہيں. واشنگٹن ميں اجلاس سے خطاب ميں بارک اوباما کا کہنا تھا کہ اب بين الاقوامي برادري کي بھي ذمہ داري بڑھ گئي ہے. ايپاک پاليسي کانفرنس سے خطاب ميں انہوں نے کہا کہ ايران پر پابنديوں کو بڑھايا جارہا ہے. امريکي صدر کا کہنا تھا کہ ايراني رہنماو?ں کے پاس اب بھي درست فيصلہ کرنے کا موقع ہے کہ وہ بين الاقوامي برادري ميں واپس آئيں يا اپنے لئے بند گليوں کاانتخاب کر ليں. امريکي صدر نے کہا کہ ايران کي تاريخ ديکھ کر يہ اندازہ ہوتا ہے کہ انہيں يہ يقين نہيں ہے کہ ايرني حکمران صحيح سميت ميں فيصلہ کريگا. انہوں نے کہا کہ ملٹري اسٹرائيک سے تيل کي قيمتوں ميں اضافہ ہوگا.دوسري جانب واشنگٹن ميں ہي ايپاک کو ايک قبضہ گروپ قرار ديتے ہوئے امريکہ اسرائيل پبلک افئير کميٹي کے کردار کے خلاف احتجاج کياگيا. ايپاک مخالف گروپ کے ايک عہديدار نے کہا کہ پہلے ہي ايپاک نے امريکيوں کوعراق کے خلاف جنگ ميں دھکيل ديا ہے اور اب يہ گروپ ايران کے خلاف جنگ ميں دھکيلنا چاہتا ہے

مقبوضہ بیت المقدس : حرمین شریفین کے بعد مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام مسجد اقصی پر انتہا پسند یہودیوں کے حملے تیز ہو گئے ہیں، گزشتہ روز صبح ایک بار پھر انتہا پسند یہودی ٹولے نے قبلہ اول پر دھاوا بول دیا۔ صہیونی فوج کی بڑی تعداد نے اس موقع پر سیکڑوں فلسطینی نمازیوں کو مسجد میں داخل ہونے سے روکے رکھا۔ گزشتہ اتوار کے دن سے آج مسلسل پانچویں روز بھی غاصب یہودیوں کے جتھوں کی مسجد اقصی آمد جاری رہی۔ بیت المقدس کے ذرائع کے مطابق مسجد میں موجود مسلمان نمازی مراکشی دروازے سے داخل ہونے والے ان حملہ آوروں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے۔مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق الاقصی فاؤنڈیشن برائے وقف و آثار قدیمہ کے مطابق اسرائیلی فوجیوں نے مسجد کو چاروں اطراف سے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ مسجد میں داخل ہونے کے تمام دروازوں پر صہیونی سکیورٹی فورسز کا جھرمٹ ہے اور نمازیوں کو مسجد میں داخل ہونے سے روکا جا رہا ہے۔ خواتین سے بھی ان کی شناخت طلب کی جا رہی ہے۔ خیال رہے کہ فلسطینی حکمران جماعت لیکود پارٹی سمیت متعدد انتہا پسند یہودی تنظیموں نے گزشتہ چند روز سے یہودی آباد کاروں جو تلمودی عبادات کی ادائیگی کے لیے مسجد آنیکی ہدایت کر رکھی ہے۔ الاقصی فاؤنڈیشن کی جانب سے مرکز اطلاعات فلسطین کو موصول ہونے والے بیان کے مطابق جمعرات کی علی الصبح پینسٹھ کے لگ بھگ غاصب یہودیوں کے تین ٹولوں نے مسجد پر دھاوا بولا، ان ٹولوں میں یہودی بستی کریات اربع کے آباد کار بھی شامل تھے۔ الاقصی فاؤنڈیشن اور مسجد اقصی کے گارڈز نے تصدیق کی کہ اسرائیلی فوج نے اس موقع پر مزاحمت کرنے والے تین فلسطینی شہریوں اور ایک گارڈ کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔ حراست میں لیے گئے فلسطینیوں میں ام فحم کے ریاض اغباریہ، سخنین کے تامر شلاعطہ اور البعینہ نجیدات گاؤں کے ابراھیم خلیل شامل ہیں۔ مسجد کا گارڈ سامر قویدر بھی صہیونی فورسز کے ہتھے چڑھ گیا۔ خیال رہے کہ الخلیل شہر کی یہودی بستی کریات اربع کی انتہا پسند یہودی جماعتوں نے مسجد اقصی پر اجتماعی حملے کا اعلان کر دیا ہے۔ دوسری جانب فلسطینی دینی، سیاسی اور قومی قیادت نے مسلمانوں سے بھی مسجد میں نماز کی ادائیگی کے لیے جوق در جوق آنے کی کال دے دی ہے۔ اسی ضمن میں انتہا پسند یہودی تنظیموں نے مسجد اقصی کو گرانے کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کی کال بھی دے دی ہے۔ یہودی گروپوں کا کہنا ہے کہ مسجد اقصی کو خدانخواستہ گرا کر اس کی جگہ پر ھیکل سلیمانی تعمیر کرنے کے لیے بڑھ چڑھ کر مالی اور جانی تعاون کیا جائے۔ مرکز اطلاعات القدس کے مطابق غاصب یہودی ٹولے گلیوں اور شاہراہوں میں ریلیاں نکال رہے ہیں اور ان ریلیوں کے دوران اسپیکر پر مسجد اقصی کی جگہ ھیکل سلیمانی تعمیر کرنے کی مہم کو کامیاب بنانے اور مہم کے لیے مالی امداد کی اپیلیں کی جا رہی ہیں۔ مشرقی القدس کی اولڈ میونسپلٹی کی شاہراہیں اسرائیلی پولیس اور فوج کے اہلکاروں سے بھری ہوئی ہیں۔ غاصب یہودیوں کی ان اشتعال انگیز ریلیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے اولڈ میونسپلٹی اور پورے القدس کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ریلیوں کے گزرنے کی مقامات پر موجود فلسطینیوں کی دکانوں کو بھی بند کروا دیا گیا ہے۔ مرکز نے بتایا کہ جنونی اور متشدد قسم کے ان یہودیوں کی ایک بڑی ریلی مسجد اقصی کے مراکشی دروازے تک پہنچی جہاں پر وہ مسجد کے دیگر دروازوں سے گزرتی ہوئی باب حطہ تک پہنچی۔ اس دروازے کے سامنے یہودیوں نے رقص کی محفل کا انعقاد کیا اور اسلام اور عربوں کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ خیال رہے کہ گزشتہ دو ہفتوں سے مسجد اقصی پر یہودیوں کے حملوں کی کوششیں جاری ہیں جس کے بعد القدس میں حالات انتہائی کشیدہ ہیں

یروشلم کی دیواروں پر’مسیحیوں کی موت‘ یا ’ تمہیں صلیب پر چڑھا دیں گے‘ کی طرح کی تحریریں نظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔ انتہاپسند یہودیوں کی جانب سے کلیساؤں، قبرستانوں اور دیگر مقامات پر حملوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ ا س سے قبل اسرائیل میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے یہودیی یا تو مسلمانوں کو نشانہ بناتے تھے یا ان کا ہدف بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد ہوا کرتے تھے۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران اسرائیل اور غرب اردن میں دس مساجد کو نذز آتش کیا گیا۔ امن کے لیے سرگرم ’پیس ناؤ‘ نامی تنظیم کے خلاف دیواروں پر نعرے لکھ کر انہیں ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ تاہم اب یہ تمام حربے اسرائیل میں آباد مسیحی برادری کے خلاف استعمال کیے جا رہے ہیں۔ دائیں بازو کے انتہا پسند یہودیوں نے فروری کے وسط میں مغربی یروم شلم میں ایک بیپٹسٹ چرچ، شہر کے قدیم یہودی علاقے کے ایک کرسچن قبرستان اور اسی طرح فروری میں ہی ایک اورتھوڈوکس کلوسٹر کی دیواروں پر اسپرے پینٹ کے ذریعے مسیحیت کے خلاف نعرے درج کیے۔پولیس کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ عام سی غنڈہ گردی ہےاور ان کارروائیوں کا نظریات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کے بقول نہ ہی ان واقعات کا محرک قوم پرستی ہے۔ اسرائیل کے صدر شمعون پیریز کا اس حوالے سے کہنا تھا ’’ میں تینوں توحیدی مذاہب سے کہنا چاہتا ہو کہ اسرائیل میں مسلمانوں، کرسچنز اور یہودیوں کے مذہبی مقامات اور ان کے رسم و رواج کا احترام کیا جائے۔ Temple Mount یعنی الحرم القدسی الشریف کی حفاظت کی جاتی ہے۔ یہ تینوں مذاہب کے ماننے والوں کے لیے مقدس ہے‘‘۔ پیریز نے مزید کہا ’’جو مسلمانوں کے لیے مقدس ہے، وہ ہمارے لیے مقدس ہے، جو مقام کرسچنز کے لیے مقدس ہیں، وہ ہمارے لیے بھی ہیں اور جو کچھ ہمارے لیے مقدس ہے وہ یقینی طور پر سب کے لیے مقدس ہےلیکن اس طرح کے بیانات یروشلم میں آباد مسیحیوں کے لیے کافی نہیں ہیں۔ اسرائیل کے دارالحکومت میں انہیں آئے دن امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قوم پرست اورانتہائی قدامت پسند یہودیوں کی جانب سےشہر کے قدیم حصے کے تنگ گلیوں میں مسیحی مذہبی شخصیات پر تھوکنا ایک عام سی بات ہے۔ اسی وجہ سے بہت سے پادریوں نے اپنے راستے تبدیل کر لیے ہیں۔ انسانی حقوق کی ایک امریکی تنظیم ’ اینٹی ڈیفیمیشن لیگ‘ نے رابیوں کے سربراہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تھوکنے کے ان حملوں کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ تاہم ابھی تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہےاس دوران رابی شلومو آمار اور یونا میٹزگر یروشلم میں مسیحی باشندوں سے یکجہتی کے اظہار کے لیے ان سے ملاقات بھی کر چکے ہیں۔ دو سال قبل غرب اردن کے ایک گاؤں یوسف میں مسجد کو نذر آتش کر دیا گیا تھا، جس کے بعد میٹزگر نے اس علاقہ کا دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا، ’’وہ اپنے پڑوسیوں کو یہ بتانے آئے ہیں کہ ہر مقدس جگہ، جہاں انسان عبادت کرتے ہیں، چاہے وہ مسجد ہو، چرچ ہو یا سینیگوگ ہو، وہ اسے نذر آتش کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔‘‘ تاہم دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے قدامت پسند اور انتہا پسند یہودیوں نے ابھی تک رابی یونا میٹزگر کی اپیل پر کان نہیں دھرے

صہیونی حکومت کے اعلی حکام کی لبنان کے خلاف دھمکیوں پر لبنان کے اعلی حکام نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ اس سلسلے میں حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے تاکید کی ہے کہ جب تک مزاحمت و استقامت زندہ ہے صہیونی حکومت لبنان پر حملہ کرنے کی جرات نہیں کر سکتی۔ سید حسن نصر اللہ نے گزشتہ روز صہیونیوں کے خلاف مزاحمت و استقامت کے کمانڈروں اور رہنماؤں کو خراج تحسین پیش کرنے کے پروگرام میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ متعدد مرتبہ جنوبی لبنان میں صہیونی غاصبوں سے جنگ کے دوران حزب اللہ نے اس حکومت کو سنگین شکست سے دوچار کیا اور اس علاقے میں امن و استحکام بحال کیا۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے صہیونی حکومت کی حالیہ دھمکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسرائیلیوں کی دھمکیوں سے ہرگز نہیں ڈرتے اوران دھمکیوں کا ہمارے عزم و ارادے پر کوئي اثر نہیں پڑے گا۔ سید حسن نصر اللہ نے مزید کہا کہ گزشتہ زمانے میں جب ہم تعداد و طاقت کے لحاظ سے بہت زیادہ قوی نہ تھے تب بھی ایریل شیرون اور اسحاق رابین جیسے اسرائیل کے نام نہاد بڑے جنرلوں سے مرعوب نہیں ہوئے تو آج جب ہم طاقت و قوت کے لحاظ سے بہت زیادہ قوی ہیں تو کس طرح ان کی دھمکیوں سے مرعوب ہو جائیں گے۔  صہیونی حکومت لبنان پر بار بار زمینی ، فضائی اور بحری حملے کر کے اس ملک کو ہمیشہ نئے حملوں کی دھمکیاں دیتی رہتی ہے۔ صہیونی حکومت کے لبنان پر متعدد حملوں، لبنان کے بعض علاقوں پر قبضے اور ہمسایہ ممالک کو دی جانے والی مستقل دھمکیوں نے پہلے سے زیادہ اس حکومت کی جنگ پسند اور مہم جو ماہیت کو واضح و آشکار کر دیا ہے۔ جس چیز نے صہیونی حکومت کے تمام منصوبوں اور ارادوں پر پانی پھیر تے ہوئے اسے علاقے میں شکست دی ہے وہ علاقے کے عوام کی مزاحمت و استقامت تھی اور گزشتہ چند سالوں میں لبنان کے مقابلے میں صہیونی حکومت کی ذلت آمیز شکست اس حقیقت کی تائید کرتی ہے۔ سید حسن نصر اللہ کی حقیقت کو برملا کرنے والی تقریر نے ایک بار پھر لوگوں کو لبنان کے خلاف صہیونی حکومت کی مذموم سازشوں کی طرف متوجہ کر دیا ہے۔ صہیونی حکومت اور اس کی حامی مغربی حکومتیں لبنان کی مزاحمت کو لبنان میں اپنی تسلط پسندانہ پالسیوں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تصور کرتی ہیں۔ صہیونی حکومت مغربی حکومتوں کی بھرپور حمایت کے باوجود گزشتہ برسوں میں متعدد مرتبہ لبنان کی مزاحمت کے مقابلے میں ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوئی ہے۔ لبنان کی استقامت کے مقابلے میں صہیونی حکومت کی مستقل ناکامیاں، جس نے دو ہزار میں اس حکومت کو لبنان کے مقبوضہ علاقوں سے پسپا ہونے پر مجبور کر دیا تھا اور اسی طرح دوہزار چھ میں لبنان کے خلاف تینتیس روزہ جنگ میں صہیونی حکومت کی ذلت آمیز شکست، لبنان کی مزاحمت و استقامت کی گرانبہا کامیابیاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صہیونی حکومت اور اس کی حامی حکومتیں لبنانی عوام کے درمیان خوف و وحشت اور اختلاف و تفرقہ پھیلا کر انھیں استقامت سے دور کرنا اور لبنان کے خلاف اپنی سازشوں پر عمل کرنا چاہتی ہیں۔ لیکن لبنان کی عوام نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ صہیونی حکومت کی سازشوں اور ہتھکنڈ وں سے باخبر اور ہوشیار ہیں۔ لبنانی عوام میں حزب اللہ کی مقبولیت میں روزافزوں اضافہ رہا ہے اور حزب اللہ بھی روزبروز مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لبنان کے عوام صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کی نئی سازشوں کو ناکام بنانے کا پختہ عزم رکھتے ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے کہ جس کی طرف سید حسن نصر اللہ نے اپنی تقریر میں اشارہ کیا ہے۔

لبنان کی عدلیہ نے تین صیہونی جاسوسوں کو موت کی سزا سنائي ہے۔ لبنان کی فوجی عدالت نے گذشتہ روز تین لبنانی شہریوں کو جو صیہونی حکومت کے لئے جاسوسی کر رہے تھے، موت کی سزا سنائي ہے۔ ایک ہفتے پہلے بھی لبنان کی فوجی عدالت نے تین لبنانیوں کو جو صیہونی حکومت کے لئے جاسوسی میں ملوث تھے، موت کی سزا سنائي تھی۔ لبنان کی سکیورٹی فورسز نے حزب اللہ کی مدد سے صیہونی حکومت کے لئے جاسوسی کرنے والے متعدد نیٹ ورک پکڑے ہیں۔ صیہونی حکومت حزب اللہ اور ملت لبنان کو نقصان پہنچانے کے لئے لبنان میں وسیع پیمانے پر جاسوسی کی کارروائیوں میں مشغول ہے۔

اسلامی جموریہ ایران کے وزیر دفاع نے تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائيل پہلے کی نسبت بہت کمزور ہوگيا ہے اور حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ عالم عرب کی سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ شخصیت ہے۔ رپورٹ کے مطابق عالم اسلام کے شہیدوں کے دوسرے عالمی سمینار سے خطاب کرتے ہوئےکہا کہ اسرائیلی فوج درمنادہ ، کمزور ، تھکی ہوئی اور شکست خوردہ فوج ہے اور وہ صہیونی جو مقبوضہ فلسطین میں زندگی بسر کررہے ہیں انیھں معلوم نہیں وہ کتنے عرصہ تک فلسطین میں رہ سکتے ہیں انھوں نے کہا کہ آج اسرائيل کا وجود حقیقی معنی میں خطرے میں پڑگیا ہے۔ ایرانی وزیر دفاع نے حزب اللہ کے شہید کمانڈروں کی یاد میں منعقدہ سمینار سے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لبنان واحد عرب ملک ہےجس نے طاقت کے زور پر غاصب اسرائیلیوں کو ملک سے باہر نکال دیا اور یہ اسلامی مقاومت اور حزب اللہ کی استقامت و پائداری اور لبنانی عوام اور فوج کے تعاون سے ممکن ہوا۔ انھوں نے کہا کہ آج حزب الہ کی دفاعی پوزیشن سے اسرائيل پر خوف و ہراس طاری ہے اور حزب اللہ کا نظریہ لبنان تک محدود نہیں بلکہ وہ دیگر مقبوضہ عرب زمین کو بھی آزاد کرانے کی فکر میں ہے انھوں نے کہا کہ حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ عالم عرب کی سب سے پسندیدہ اور محبوب شخصیت ہیں۔ انھوں نے کہا کہ شیعہ اور سنی ہونا مہم نہیں ہے اہم بات یہ ہے کہ ہم کس طرف ہیں اور کس کے حامی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ 33 روزہ لبنان کی جنگ میں اسرائيل کی تاریخی شکست اور اس کے بعد غزہ میں 22 روزہ جنگ میں اسرائيلی شکست سے صاف ظاہر ہوگيا ہے کہ اسرائيل بہت ہی کمزور اور شکست پذير ملک ہے اور اس کی طاقت پہلے جیسی نہیں ہے

بين الاقوامی ایٹمی توانائی ايجنسی کے ايران کے ساتھ تازہ ترين مذاکرات بے نتيجہ رہے ہيں۔ تبصرہ نگار کے مطابق يہ ايک سفارتی حل کے ليے اچھی علامت نہيں ہےبين الاقوامی ايٹمی توانائی ايجنسی کے معائنہ کاروں نے ايک فوجی اڈے کے اندر واقع ايرانی ايٹمی تنصيب پارشين تک رسائی کے ليے دو روز تک کوشش کی ليکن تہران حکومت اس پر راضی نہ ہوئی۔اس نے کليدی دستاويزات کا معائنہ کرنے اور ايٹمی پروگرام ميں حصہ لينے والے سائنسدانوں سے بات چيت کرنے کی اجازت بھی نہيں دی۔ اس کے بعد ايٹمی توانائی ايجنسی کے سائنسدان اپنے مشن ميں ناکام ہو کر واپس آ گئے۔ ايرانی حکام کی طرف سے کہا گيا کہ بين الاقوامی توانائی ایجنسی کے معائنہ کاروں کے ساتھ بات چيت خوشگوار اور پراعتماد ماحول ميں ہوئی۔ ايک ناکام مشن کی اس سے زيادہ غلط تشريح ممکن نہيں تھی۔ چند ہفتوں کے اندر معائنہ کاروں کے دوسرے ناکام مشن کا مطلب اگلے ہفتوں اور مہينوں کے ليے اچھا نہيں ہے۔ خاص طور پر جب اسے سياق و سباق کے حوالے سے ديکھا جائے۔
ايک دوسرے کی اقتصادی ناکہ بندی
ايرانی حکومت مارچ کے پارليمانی انتخابات سے قبل ايک اور زيادہ سخت پاليسی پر مائل نظر آتی ہے۔ ايرانی وزارت تيل نے پچھلے ويک اينڈ پر ہی فرانس اور برطانيہ کو ايرانی تيل کی فراہمی فوراً بند کر دينے کا اعلان کر ديا تھا۔ دونوں ملکوں نے يورپی يونين کی طرف سے ايرانی تيل کی درآمد پر يکم جولائی سے عائد کی جانے والی پابندی کو خاص طور پر سختی سے نافذ کرنے کا اعلان کيا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ايرانی بحريہ نے شام کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقوں کے ليے دو جہاز بحيرہء روم پہنچا ديے تھے۔ فوجی لحاظ سے يہ ايک غير اہم کارروائی ہے ليکن شام کی صورتحال کی وجہ سے يہ ايک سوچی سمجھی اشتعال انگيزی تھی۔ يورپی اور امريکی ايرانی تجارت ميں خلل ڈالنے کی کوششوں ميں اچھا خاصا آگے بڑھ چکے ہيں۔ ٹيلی کميونیکيشن سسٹم اوررقوم کی منتقلی کا زيادہ تر کاروبار انجام دينے والا ادارہ Swift ايرانی بينکوں سے روابط منقطع کرنے ميں مصروف معلوم ہوتا ہے۔ اس کے نتيجے ميں ايران کو ان ممالک سے بھی تجارت کرنے ميں شديد مشکلات پيش آئيں گی جنہوں نے ايران پر کوئی پابندی نہيں لگائی۔ ان ميں روس اور چين پيش پيش ہيں۔
اعتماد کے بجائے مخاصمت
درحقيقت فريقين نے آخر ميں نئے مذاکرات کے ليے کوششيں کی تھيں۔ ابھی پچھلے ہفتے ہی ايرانی مذاکراتی قائد جليلی نے يورپی يونين کی امور خارجہ کی ذمہ دار کیتھرين ايشٹن کو ان کے اکتوبر 2011 کے مکتوب کا جواب ديا تھا اور ايران کے ايٹمی پروگرام پر بات چيت پر آمادگی کا اشارہ ديا تھا۔ ايشٹن نے اپنے خط ميں پرامن مقاصد کے ليے ايٹمی پروگرام کے ايرانی حق کو واضح طور پر تسليم کيا تھا اور اس طرح ايک سازگار فضا پيدا کردی تھی۔بين الاقوامی ایٹمی توانائی ايجنسی کے معائنہ کار ايران ميں يہ جانچ پرکھ کرنا چاہتے تھے کہ کيا ایران کا ايٹمی پروگرام واقعی پرامن مقاصد کے ليے ہے، جيسا کہ ايران کا دعوٰی ہے۔ ليکن ايران نے تعاون اور اس طرح رفتہ رفتہ اعتماد کا ماحول پيدا کرنے کے بجائے سختی اور ہٹ دھرمی کا راستہ اختيار کيا۔ اس طرح مذاکرات پر زور دينے والے جرمنی جيسے ممالک بھی يہ تاثر حاصل کر رہے ہيں کہ ايران کے ليے مذاکرات کا واحد مقصد مزيد مہلت حاصل کرنا ہے، جس دوران اسرائيل ايرانی ايٹمی تنصيبات پر حملے سے گريز کرتا رہے اور ايران ايٹمی ہتھياروں کی تياری جاری رکھے۔
اسرائيلی عزائم کی حوصلہ افزائی
اقوام متحدہ کی ويٹو طاقتيں اور جرمنی اب ايران کی نئے مذاکرات کی پيشکش قبول کرنے پر غور کر رہے ہيں۔ بين الاقوامی ايٹمی توانائی ايجنسی کے معائنہ کاروں کے حاليہ مشن کا مقصد يہ بھی آزمانا تھا کہ ايران اپنے ايٹمی پروگرام کے بارے ميں شکوک و شبہات دور کرنے کے ليے کس حد تک معائنے کی اضافی اجازتيں دينے پر تيار ہے۔ يہ آزمائش دوسری بار ناکام رہی ہے۔يہ سب کچھ اسرائيلی حکومت کے عزائم کے لیے اور تقويت کا باعث ہے، جو يہ سمجھتا ہے کہ ايران کو صرف فوجی طاقت کے ذريعے ہی ايٹم بم بنانے سے روکا جا سکتا ہے۔ اسرائيلی وزير اعظم بینجمن نيتن ياہو اگلے ہفتے سياسی مذاکرات کے ليے واشنگٹن جا رہے ہيں۔ اب امريکی صدر کے ليے اسرائيل سے يہ کہنا اور بھی مشکل ہو گيا ہے کہ وہ تحمل سے کام لے۔

تہران: ایران نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی حملے کی صورت میں فوری رد عمل کے طور پر ایران اپنی روسی ساختہ آبدوز متحرک کر سکتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آبنائے ہرمز سے خلیجی ممالک کے درجنوں بحری جہاز روزانہ خلیج فارس سے نکلنے والا تیل لے کر گزرتے ہیں اسرائیلی کی طرف سے حملے کی صورت میں فوری رد عمل کے طور پر ایران اپنی روسی ساختہ آبدوزوں کو متحرک کر سکتا ہے جبکہ ایران کا دوسرا  انتخاب تیزی سے حملہ کرنے والی آئی آر سی ڈی سپیڈ بوٹس کا استعمال کر سکتا ہے جس پر ایس اے ٹو میزائل نصب ہیں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران کے پاس چھوٹے سائز کی سپیڈ بوٹس بھی ہیں موجود ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں خود کش بمبار چلاتے ہیں تھوڑے گولہ بارود سے لیس ہونے کے باوجود ان بوٹس کو کافی خطرناک سمجھا جاتا ہے ایران کے پاس بحری جہازوں کو نشانہ بنانے والے میزائلوں کا ذخیرہ بھی موجود ہیں

صیہونی پارلیمنٹ کے ایک رکن نے مصر کے سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک سے وہ تین سو میلن ڈالر واپس دینے کا مطالبہ کیا ہے جو انہیں مصر میں نصاب تعلیم بدلنے کے لئے دئے گئےتھے۔اسلام الیوم ویب سائٹ نےنابلس ٹی وی کےحوالے سے لکھا ہے کہ صیہونی پارلیمنٹ کےرکن بنیامین الیعازر نے مصر کےسابق ڈکٹیٹر سے وہ تین سو ملین ڈالر واپس مانگ لئے ہيں جو انہیں مصر کے نصاب تعلیم بدلنے کے لئے رشوت کے طور پر دئے گئے تھے۔قابل ذکر ہے حسنی مبارک کی اہلیہ سوزان مبارک نے صیہونی حکومت کی ایما پر مصر کا نصاب تعلیم بدلنے کے لئے صیہونی ماہرین سے مذاکرات کئے تھے جن میں قاہرہ میں صیہونی سفیر بھی شامل تھا۔ ادھر صیہونی اخبار روز الیوسف نے لکھا ہے کہ سابق ڈکٹیٹر کی اہلیہ سوزان مبارک نے صیہونی حکومت کی منشاء کے مطابق مصر کے نصاب میں تبدیلیاں لانے نیز مصر کے وزیر تعلیم و اوقاف پر دباؤ ڈالنے کے لئے صیہونی حکام سے مذاکرات کئے تھے۔ اس اخبار کے مطابق سوزان مبارک کو ان مذاکرات کے بعد تین سو ملین ڈالر کی رشوت دی گئي تھی تاکہ مصر کے تعلیمی نصاب میں شامل قرآن کی آیات اور یہودیوں کے خلاف مواد کو نکال دیا جائے۔ یاد رہے عالم اسلام کے مبصرین کا کہنا ہے کہ مصر کا سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک جس نے تیس برسوں تک مصر پر حکومت کی تھی صیہونی حکومت کا بے چون و چراغلام تھا اور اس نے مصر کے تمام امور صیہونیوں کےمطابق چلانا شروع کردئے تھے۔ عوامی انقلاب کے نتیجے میں حسنی مبارک کو اقتدار سے ہٹنا پڑا۔

بيروت … لبنان کي مزاحمتي تنظيم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے بھارت اورجارجيا ميں اسرائيلي سفارتخانوں پر حملوں ميں ملوث ہونے کاالزام بے بنياد ٹھہراديا ہے اور کہاہے کہ اپنے ليڈر کابدلہ لينے کے ليے عام اسرائيلي شہري،سفارتکار يافوجي کو مارنا تنظيم کے ليے شرمناک کام ہے.بيروت ميں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے حزب اللہ کے سربراہ نے کہاکہ وہ يہ بيان اس ليے دينے پرمجبورہوئے کيونکہ حزب اللہ کو ان دھماکوں ميں ملوث ٹھہرانيکي کوشش کي جارہي ہے.جبکہ تنظيم کا ان سے تعلق ہي نہيں. حسن نصراللہ نے کہاکہ اسرائيل جانتاہے کہ حزب اللہ اپنے عظيم رہنما ايمادمغنيہ کي شہادت کابدلہ لينے کے ليے کيا اقدام کريگي اوروہ دن بھي ضرورآئيگا.اس سے پہلے ايران بھي ان دھماکوں ميں ملوث ہونيکااسرائيلي الزام مستردکرچکاہے.

یروشلم: اگر بشار الاسد کی حکومت ختم ہوتی ہے تو شام سے حساس ہتھیار عسکری گروپ حزب اللہ اور لبنان کو منتقل ہو سکتے ہیں ۔ یہ انتباہ جمعرات کو اسرائیلی وزیر دفاع ایہود بارک نے دیا۔ انہوں نے اسرائیلی فوجی ریڈیو کو بتایا ”ہمیں اپنی ذمہ داری کے تحت خبردار رہنا ہو گا تا کہ حکومت گرنے پر حزب اللہ اور لبنان کو شام سے حساس ہتھیاروں کی منتقلی کو روکا جا سکے”۔ انہوں نے مزید تفصیلات بتائے بغیر  کہا ” ہم اس مسئلے کا مستقل اور محتاط انداز میں جائزہ لے رہے ہیں ”۔ باراک نے کہا کہ اسرائیل کا اندازہ ہے کہ اسد کی حکومت کچھ وقت کا معاملہ رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا ”بشار الاسد کی حکومت کے دن پورے ہو چکے ہیں اور ہر ہفتے کے ساتھ صورتحال خراب سے خراب تر ہو رہی ہے”۔ اسرائیل ہمسایہ ملک شام میں پیش آنے والے واقعات پر نظر رکھے ہوئے جہاں اسد کی حکومت نے سیاسی مخالفین کے خلاف پرتشدد کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں جن میں کارکنوں کے مطابق 6 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں ۔اسرائیل کو خدشہ ہے کہ وہ حکومت کی کمزوری اور خاتمے سے بری طرح متاثر ہو گا ‘ان خدشات میں مہاجرین کی آمد یا توجہ ہٹانے کیلئے صہیونی ریاست پر حملے کے اقدامات شامل ہیں ۔حکام نے بھی خبردار کیا ہے کہ شام کے ہتھیار جن میں کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار شامل ہیں عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں جن میں حزب اللہ بھی شامل ہے جو 2006ء میں اسرائیل کے خلاف ایک جنگ بھی لڑ چکی ہے ۔گزشتہ ماہ اسرائیلی فضائیہ کے آئندہ سربراہ میجر جنرل عامرایشل نے کہا تھا کہ شام کے پاس اس قسم کے ہتھیاروں کے ”بڑے ذخائر” موجود ہیں ۔ انہوں نے کہا ”بڑا خدشہ کیمیائی ‘حیاتیاتی ہتھیاروں کے بڑے ذخائر اور شام کے پاس موجود عسکری صلاحیت ہے جو اسے زیادہ تر مشرقی یورپ سے ملی ہے” ۔” یہ ایک بڑا خدشہ ہے کیونکہ مجھے نہیں معلوم کہ آنے والے وقت میں انہیں کون سنبھالے گا اب تک یہ بھی معلوم نہیں کہ حزب اللہ کو کیا کچھ مل چکا ہے ؟حزب اللہ کو مزید کیا کچھ منتقل ہو گا ؟ شام کے اندر موجود گروپوں کے درمیان کیا کچھ تقسیم ہو گا ؟ اور آئندہ کیا کچھ ہونے جا رہا ہے؟

جرمن نیوز ایجنسی کے مطابق مقام معظم رهبری کا کہنا تھا کہ ایران کسی کی دھمکیوں کی وجہ سے اپنے اٹامک پروگرام سے دستبردار نہیں ہو گا، ان کا کہنا تھا کہ ایران خود پر لگائی گئی پابندیوں کا منہ توڑ جواب دے گا۔مقام معظم رهبری کے بیانات سے ورلڈ میڈیا میں ہلچل کا سماں، ہر اخبار نے ان کے بیانات میں سے مختلف اہم نکات کا انتخاب کیا، فارس نیوز کے مطابق مقام معظم رہبری کے نمازِ جمعہ کے خطبے کے فورا بعد رویٹرز نیوز ایجنسی نے لکھا جمعے کے دن ایران کے سپریم لیڈر نے کہا کہ ایران کسی کی دھمکیوں کی وجہ سے اپنے اٹامک پروگرام سے دستبردار نہیں ہو گا، ان کا کہنا تھا کہ ایران خود پر لگائی گئی پابندیوں کا منہ توڑ جواب دے گا۔
رویٹرز نیوز کے مطابق رهبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ایران پر حملہ کرنے کی دھمکیاں یا ایران پر حملہ کرنے سے خود امریکہ کو نقصان پہنچے گا۔ ایران پر اقتصادی پابندیوں کا ایران کے اٹامک پروگرام سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے جنگ، ایران پر اقتصادی پابندیوں اور تیل نہ خریدنے کی امریکی دھمکیوں کے جواب میں کہا کہ ہمارے پاس بھی دھمکیوں کی کمی نہیں لیکن ہم ان کو مناسب وقت پر استعمال کریں گے۔   
رویٹرز نیوز ایجنسی نے مقام معظم رهبری  کے بیان کو نقل کرتے ہوئے کہا کہ “مجھے یہ کہنے میں کوئی ڈر یا باک نہیں کہ جو قوم یا گروہ اسرائیل کا مقابلہ کرے گا ہم اسکی علی الاعلان حمایت کریں گے”۔ پاکستانی اخبار ڈان نے بھی رویٹرز کی اس خبر کو من و عن لگایا ہے۔ 
آذر بائیجان کی نیوز ایجنسی ترند نے مقام معظم رهبری کے بیانات کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے،”انقلابِ اسلامی، ایران کے لوگوں کے لئے آزادی اور عزت لایا، انقلابِ اسلامی ایران نے اسلام مخالف قوتوں کو درھم برھم کر دیا اور ڈیکٹیٹر شپ کو ڈیمو کریسی میں تبدیل کر دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران نے اقتصادی پابندیوں کے باوجود عظیم کامیابیاں حاصل کی ہیں”۔ ترند نیوز نے رہبر معظم‌ کے بیان کو نقل کرتے ہوئے کہا کہ بحرین کے بارے میں مقام معظم رهبری کا کہنا تھا کہ اگر ایران نے بحرین میں مداخلت کی ہوتی، تو بحرین کے انقلاب کی صورتحال کچھ اور ہوتی۔
فرانس نیوز ایجنسی نے مقام معظم رهبری کے بیانات کو کچھ یوں نقل کیا کہ ایران خود پر لگائی گئی پابندیوں اور دھمکیوں کا محکم جواب دے گا۔ اسرئیلی اخبار Haaretz نے تمام خبروں کو رویٹز نیوز کے مطابق نقل کیا ہے۔ ایک اور اسرائیلی اخبار بدیعوت آحارونوت نے نیز  مقام معظم رهبری کے بیانات میں سے اس فراز کا انتخاب بطور عنوان کیا ہے۔ کہ “اسرائیل ایک سرطانی غدہ ہے”، اس اخبار نے مزید نقل کیا ہے، امریکہ کی ایران کو دھمکیوں سے اسے خود کو ہی نقصاں پہنچے گا۔ اسرائیلی اخبار کا کہنا تھا کہ آیت اللہ خامنہ ای کا اشارہ آبنائے ہرمز کی بندش کی طرف تھا۔ 
اسوشیتد پریس کے مطابق ایران کے رهبرِ عالی نے اپنے بیانات میں اسرائیل کو سرطان سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا جو قوم یا گروہ اسرائیل کا مقابلہ کرے گا ہم اسکی علی الاعلان حمایت کریں گے، انہوں نے اپنے بیانات کہا کہ ایران نے اسرائیل کے مقابلے پر حماس اور حزب اللہ کی حمایت کی۔
جرمن نیوز ایجنسی کے مطابق مقام معظم رهبری کا کہنا تھا کہ  ایران کسی کی دھمکیوں کی وجہ سے اپنے اٹامک پروگرام سے دستبردار نہیں ہو گا، ان کا کہنا تھا کہ ایران خود پر لگائی گئی پابندیوں کا منہ توڑ جواب دے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایران نے اقتصادی پابندیوں کے باوجود ٹیکنالوجی کے میدان میں مثالی ترقی کی ہے، اور نئی اقتصادی پابندیوں سے بھی ایران کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اسی نیوز ایجنسی نے رهبر انقلاب اسلامی کے بیانات کی تحلیل کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ عرب امارات ایران سے مذاکرات کرنے سے ہراساں ہے، اور سمجھتا ہے کہ جنگ اور خونریزی ہی تمام مسائل کا حل  ہے۔  رهبر انقلاب اسلامی کے بیانات کی بازگشت ابھی بھی ورلڈ میڈیا پر جاری ہے۔

صیہونی حکومت نےاعلان کیاہے کہ تحریک فتح اورحماس کی متحدہ فلسطینی حکومت کو وہ تسلیم نہيں کرےگی ۔ واضح رہے کہ دوحہ میں فلسطینی انتظامیہ کے صدرمحمودعباس اور تحریک حماس کےسیاسی شعبے کےسربراہ خالدمشعل کےدرمیان قومی مذاکرات اور مذاکرات کےدوران متحدہ حکومت کی تشکیل پراتفاق رائےکا فلسطینی عوام اوررائےعامہ نے خیرمقدم کیاہے جبکہ صیہونی حکومت اور اس کےحامی سیخ پاہوگئےہيں۔ فلسطینی انتظامیہ کےصدر محمودعباس اور تحریک حماس کےسیاسی شعبےکےسربراہ خالدمشعل نے چھ فروری کو قطرکےدارالحکومت دوحہ میں اٹھارہ فروری کومحمودعباس کی سربراہی میں ایک عبوری فلسطینی حکومت کی تشکیل نیزچارمئی کو فلسطینی مجلس قانون سازکےانتخابات کرائے جانےکےمعاہدے پردستخط کئےہیں۔ ان حالات میں صیہونی وزيرخارجہ اویگیدورلیبرمین نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کےنمائندوں کےاجلاس میں کہاکہ اگرتحریک حماس اسرائیل کےسلسلےمیں اپنی پالیسی تبدیل نہيں کرےگی تو اسرائیل، فتح اورحماس کی مشترکہ حکومت کوتسلیم نہيں کرےگا۔ لیبرمین نےتاکید کےساتھ کہاکہ فلسطینیوں کےدرمیان قومی آشتی معاہدہ اسرائیل کےساتھ فلسطینی انتظامیہ کےمذاکرات کومشکلات سےدوچارکردےگا۔ صیہونی حکومت نے مشرق وسطی سازبازعمل کوہمیشہ فلسطینیوں سےمراعات حاصل کرنےاور ان پراپنی تسلط پسندانہ پالسیاں مسلط کرنے کےلئے ایک ہتھکنڈےکےطورپر استعمال کیاہے جس کافلسطینیوں کےلئےخطرناک منفی نتائج کےسوا کوئی نتیجہ نہيں نکلاہے۔ صیہونی حکومت اس بات سےواقف ہے کہ فلسطینی انتظامیہ کاقومی مذاکرات کےعمل سےملحق ہوناجس کامحور صیہونی حکومت کی ہرطرح کی تسلط پسندی کی مخالفت کرناہے ، فلسطینی انتظامیہ کےصیہونی حکومت کےسامنےتسلیم رہنےکی روش سےدورہونےکاسبب بنےگا۔ یہ امرصیہونی حکومت کوسنگین خطرے سےدوچارکردےگا اور بنیادی طورپر فلسطینیوں کاقومی اتحاد اوراسی بناپر قومی حکومت کی تشکیل،صیہونی حکومت کےلئے ایک تلخ حقیقت شمارہوتی ہے۔ اس میں کوئي شک نہيں کہ فلسطینیوں کےدرمیان قومی آشتی صیہونی حکومت کےمقابلےميں فلسطینیوں کےموقف میں استحکام اورآخرکار فلسطینیوں کےحقوق کےحصول میں معاون ثابت ہونےپرمنتج ہوگی۔ اوراسی بناپرصیہونی حکومت نےہمیشہ فلسطینیوں کےدرمیان قومی آشتی کےعمل کی مخالفت اوراس میں رخنہ ڈالنےکی کوشش کی ہے۔اوراس تناظرمیں صیہونی حکومت نے فتح اورحماس کےدرمیان مذاکرات کےعمل کوروکنےکی کوششیں تیزکردی ہیں جس نےفلسطینیوں کی مستقل ہوشیاری کومزید ضروری بنادیا ہے۔

تیونس کے اسلام پسند رہنما نے تاکید کی ہے کہ  تیونس اسرائیل کی غاصب حکومت کو ہرگز تسلیم نہیں کرےگا۔ الشرق الاوسط کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ تیونس کی اسلام پسند تنظیم النہضہ کے سربراہ راشد الغنوشی نے تاکید کی ہے کہ تیونس اسرائیل کی غاصب حکومت کو ہرگز تسلیم نہیں کرےگا۔ انھوں نے کہا کہ فلسطین تمام اسلام پسند تنظیموں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران تیونس کا دشمن نہیں ہے۔ الغنوشی نے کہا کہ تیونس میں اب ڈکٹیٹرشپ واپس نہیں آئے گی اورقومی بیداری جمہوریت کی پشتپناہ ہے۔ الغنوشی نے کہا کہ ایران ہمارا دشمن نہیں ، ایران کے  ساتھ بعض مسائل میں ہمارا اتفاق ہے اور بعض مسائل میں اختلاف ہے۔ واضح رہے کہ تیونس کے فراری صدر کے بعد اسلام پسند تنظيم النہضہ کو تیونس میںزبردست کامیابی ملی ہے تیونس کے فراری اور ڈگٹیٹر صدر بن علی نے سعودی عرب کے ڈکٹیٹروں کی آغوش میں پناہ لےرکھی ہے

فلسطینی منتخب وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ ایک اعلی وفد کے ہمراہ تہران پہنچ گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق فلسطینی منتخب وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ ایک اعلی وفد کے ہمراہ تہران پہنچ گئے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ تہران میں  اپنے دو روزہ دورے کے دوران ایران کے اعلی حکام منجملہ ایران کے روحانی پیشوا خصرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے ساتھ ملاقات کریں گے اور فلسطین کے بارے میں انھیں رپورٹ پیش کریں گے۔ فلسطینی وزیر اعظم ایران کے صدر احمدی نژاد اور وزیر خارجہ علی اکبر صالحی کے ساتھ بھی دو طرفہ روابط اور مسئلہ فلسطین کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گے۔ ایران کے نائب صدر محمد رضا رحیمی نے اسماعیل ہنیہ کا استقبال کیا۔ اور اس کے بعد دونوں رہنماؤں نے سرکاری مذاکرات کا آغاز کردیا۔

روس کے وزیراعظم ولاديمير پيوٹن نے امريکہ اور يورپي ممالک کو متنبہ کيا ہے کہ وہ شام کيخلاف کسي بھي قسم کي فوجی جارحيت سے باز رہيں. اینٹرفیکس  کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ روس کے وزیراعظم ولاديمير پيوٹن نے امريکہ اور يورپي ممالک کو متنبہ کيا ہے کہ وہ شام کيخلاف کسي بھي قسم کي فوجی جارحيت سے باز رہيں.ايک بيان ميں ولاديمير پيوٹن نے کہا ہے کہ ہم شام ميں جاري پرتشدد کارروائيوں کي مذمت کرتے ہيں مگر اس کے باوجود ہم شام کيخلاف کسي بھي قسم کي جارحيت کي اجازت نہيں ديں گے. ولاديمير پيوٹن کا يہ بيان روسی وزير خارجہ سرگئي لاروف کي شام کے صدر بشار اسد سے ملاقات کے بعد وطن واپسي پر سامنے آيا ہے. ان کا کہنا تھا کہ صرف شام کے عوام کو اپنے مستقبل کا فيصلہ کرنے کا اختيار ہے. دوسري جانب روس کے وزير خارجہ سرگئي لاروف نے شام سے واپسي پر ميڈيا سے گفتگو ميں کہا کہ شام کي صورتحال پر ہونيوالے قومي سطح کے ڈائيلاگ کے نتائج کا فيصلہ کرنا شامي عوام کا اختيار ہے نہ کے بين الاقوامي کميونٹي کا. انھوں نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو دوسرے ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائےگی۔ روس کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک کو شام کے بارے میں اپنے معاندانہ مؤقف کو تبدیل کرنا چاہیے۔

روس کی وزارت خارجہ نے ایران کے خلاف کسی بھی حماقت اور فوجی کارروائی پرخبردار کرتے ہوئےکہا ہے کہ ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے بارے میں تمام پروپیگنڈے بےبنیاد ہیں اور ان کی اصل وجہ مغربی ممالک کےسیاسی اور تبلیغاتی اہداف ہیں۔رپورٹ کے مطابق روسی وزارت خارجہ کے اہلکار میخائیل اولیانوف نے اینٹر فیکس کے ساتھ گفتگو میں ایران کے خلاف کسی بھی حماقت اور فوجی کارروائی پرخبردار کرتے ہوئےکہا ہے کہ ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے بارے میں تمام پروپیگنڈے بےبنیاد ہیں اور ان کی اصل وجہ مغربی ممالک کےسیاسی اور تبلیغاتی اہداف ہیں۔ اس نے کہا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام فوجی نوعیت کا بالکل نہیں ہے اور ایٹمی ایجنسی اپنی متعدد رپورٹوں میں اس کی مکمل تائید کرچکی ہے اور آج بھی ایران کے ایٹمی پروگرام پر ایٹمی ایجنسی کی مکمل نگرانی جاری ہے اور اس صورت میں ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا سیاسی اور تبلیغاتی اہداف کے لئے ہے۔ اس نے کہا کہ بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے سربراہ یوکیوآمانو کی حالیہ رپورٹ میں ایران کے  ایٹمی پروگرام کے فوجی ہونے کے بار ےمیں کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔ ادھر فرانس کے صدر نے بھی ایران کے خلاف فوجی کارروائی پر خبردار کیا ہے۔

فرانس کے صدر نے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے تباہ کن اثرات پر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے پرامن ایٹمی معاملے کا حل صرف سفارتکاری کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ایسوسی ایٹڈ پریس کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ فرانس کے صدرنکولا سرکوزی نے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے تباہ کن اثرات پر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے پرامن ایٹمی معاملے کا حل صرف سفارتکاری کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ فرانسیسی صدر نے فرانس کے یہودیوں کی کونسل سے کل رات خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو فوجی کارروائی کے ذریعہ متوقف کرنا تباہ کن ثابت ہوگا۔سرکوزی نے کہا کہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی ایران کے ایٹمی معاملے کا حل نہیں ہے۔ اس معاملے کو صرف مذاکرات اور گفتگو کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ایران علاقائی ممالک کے حالات میں مداخلت نہیں کرتا بحرین میں اگر ایران کی مداخلت ہوتی تو آج بحرین کا نقشہ کچھ اور ہی ہوتا۔ ایران اسرائیل کے خلاف ہراس قوم ،ملک اور ہر گروہ کی حمایت کرنے کے لئے تیار ہے جو اسرائیل کے خلاف نبرد آزما ہو۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار نماز جمعہ کے خطبوں کے دوران کیا ۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نماز جمعہ کے خطبوں میں بحرین میں ایران کی مداخلت کے الزام کے جواب میں کہا ،ایران اسرائیل کے خلاف حماس اور حزب اللہ کی حمایت کرتا ہے اور دونوں تنظیموں نے 33 روزہ جنگ اور 22 روزہ جنگ میں اسرائیل کے خلاف نمایاں کامیابی حاصل کی اور اس کے بعد بھی ایران ہراس قوم ،ملک اور ہر گروہ کی حمایت کرنے کے لئے تیار ہے جو اسرائیل کے خلاف نبرد آزما ہو۔ رہبر معظم نے بحرین کے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ایران بحرین کے معاملے میں مداخلت نہیں کرتا اور اگر ایران کی مداخلت ہوتی تو آج بحرین کا نقشہ کچھ اور ہی ہوتا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہاایران نے گذشتہ 32 برسوں میں مختلف چیلنجوں کا مقابلہ اور ان پر غلبہ حاصل کیا ہے اور اسی طرح ایران نے گذشتہ برسوں میں علم و پیشرفت کی سمت خاطر خواہ اور قابل اطمینان پیشرفت حاصل کی ہے اور ایران کی علمی پیشرفت سے دشمن سخت پریشان ہے اور اسی لئے اس نے ایران کے خلاف اپنی سازشوں میں اضافہ کردیا ہے

اسرائیل کے خفیہ دارے موساد کے سابق سربراہ نے دعوی کیا ہے کہ حزب اللہ لبنان کی میزائل ٹیکنولوجی دنیا کے 90 فیصد ممالک سے بھی جدیدترہے۔فلسطینی خبررساں ایجنسی سما کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اسرائیل کے خفیہ دارے موساد کے سابق سربراہ میئر ڈاگان نے دعوی کیا ہے کہ حزب اللہ لبنان کی میزائل ٹیکنولوجی دنیا کے 90 فیصد ممالک سے  جدید ترہے۔ ڈاگان کے مطابق حزب اللہ لبنان کی میزائل ٹیکنولوجی کے پیش نظر اگر جنگ ہوجائے اور شام بھی اس جنگ میں شامل ہوجائے تو اس سے اسرائيل کا اندرونی محاذ کمزور ہوجائے گا اور اسرائيل ،  شام اور حزب اللہ کے میزائلوں کا مقابلہ  نہیں کرپائےگا۔ ڈاگان کا کہنا ہے کہ وہ شام اور اسرائيل کے درمیان صلح کی حمایت کرتا ہےبشرطیکہ شام حزب اللہ کو ہتھیار ڈالنے اور حزب اللہ اور ایران کے ساتھ تعاون ترک کردے تواس کے بدلے میں اسرائیل کو بھی جولان کی پہاڑیوں سے پیچھے ہٹنے پر غور کرنا چاہیے

مغربی ممالک کے بعض ذرائع کے مطابق امریکہ اور اسرائيل کو ایران کے خلاف جنگ پر اکسانے کے لئے عرب خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب کی کوششوں میں تیزی آگئی ہے اورسعودی حکام نے صہیونیوں کے ساتھ خفیہ ملاقات میں ایران کے خلاف جنگ کے تمام اخراجات ادا کرنے کا وعدہ کیا ہےالنخیل سائٹ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائيل کو ایران کے خلاف جنگ پر ابھارنے کے لئے عرب خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب کی کوششوں میں تیزی آگئی ہے اورسعودی حکام نے صہیونیوں کے ساتھ خفیہ ملاقاتوں میں ایران کے خلاف جنگ کے تمام اخراجات ادا کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام اور آبنائے ہرمز کو بند کرنے کے خطرے کے پیش نظر ایران پر ہمہ جہت فوجی حملہ کیا جائے۔ مذکورہ سائٹ کے مطابق سعودی عرب اور بعض دیگر خلیجی ممالک موجودہ وقت کو ایران پر حملے کے لئے مناسب قراردیتے ہیں سعودیوں کا خیال ہے کہ ایران پر حملہ شروع کرنے کے لئے شام کو مشغول رکھنا ضروری ہے۔ سائٹ کے مطابق سعودی عرب نےاسرائیلی حکام کے درمیان یورپی ممالک اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں جنگ کے اخراجات کو قبول کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے

اسرائيلي فوج نے فلسطيني مجلس قانون ساز کے اسپيکر اور حماس کے رہنما عزيز الدويک کو اغوا کر ليا الیوم السابع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اسرائيلي فوج نے فلسطيني مجلس قانون ساز کے اسپيکر اور حماس کے رہنما عزيز الدويک کو اغوا  کر ليا فلسطيني پارليمنٹ کے اسپيکر عزيز دويک کو ارکان پارلیمنٹ نزاررمضان اوردوساتھيوں سميت الخلیل  جاتے ہوئے جعبہ کے چيک پوائنٹ سے اسرائيلي فوجيوں نے اغوا کرليا تاہم عزيز الدويک اور نزار رمضان کو حراست ميں لے کر باقي 2 افراد کو رہا کر ديا گيا. اسرائيل نے اب تک حماس کے 74 ارکان پارليمنٹ ميں سے تقريبا 20 کو گرفتار کر ليا ہے. واضح رہے کہ عزیز الدویک کو 2006 میں بھی پارلیمنٹ کے نمائندوں سمیت اغوا کرلیا تھا اور گذشتہ برس مئی میں آزاد کیا تھا۔.

اسرائیل کے انتہا پسند یہودیوں کے ایک گروپ حریدی انتہائی سخت نظریات رکھتا ہے۔ یہ گروپ اسرائیل کی سیکولر آبادی پر بھی اپنے قدامت پسند اور سخت نظریات کا نفاذ چاہتا ہے۔ حریدی انتہائی سخت عقیدے کے حامل یہودی ہیں۔ یہ اپنے سیاہ لمبے کوٹ اور کالے ہیٹ کی وجہ سے سب سے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ بیت شیمش میں خواتین مردوں کے ساتھ ایک ہی فٹ پاتھ پر نہیں چل سکتیں۔ ان کے لیے علیحدہ فٹ پاتھ مقرر ہیں۔ جگہ جگہ نشان ہیں کہ خواتین مناسب لباس زیب تن کریں۔ پورے بازو کی آستین اور لمبا اسکرٹ پہننا لازمی ہے۔ ان کے مطابق ایک آٹھ سالہ بچی کو بھی ایسا ہی لباس پہننا چاہیے۔ان کا مطالبہ ہے کہ بسوں میں خواتین اور مردوں کے حصوں کو الگ رکھنے کے قانون پر عمل درآمد جاری رکھا جائے۔ اسرائیل میں 1980ء سے بسوں میں مردوں اور خواتین کے علیحدہ حصے قائم ہیں۔ حریدی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایک مظاہرے کے دوران ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حکومت جرمن نازیوں سے مشابہت رکھتی ہے اور حکومت کا عوام کی زندگیوں میں غیر ضروری طور پر بہت زیادہ عمل دخل ہے۔اسرائیل کے آٹھ ملین یہودیوں میں سے تقریبا دس فیصد انتہائی مذہبی نظریات کے حامل ہیں اور جدید، مغربی اور سیکولر نظریات کی سخت مخالف ہیں۔ یہ یہودی گروپ دوسروں پر بھی اپنے نظریات کا نفاذ چاہتا ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال وہ بچی بھی ہے، جس پر ان کٹر یہودیوں نے جنوری میں تھوکنے سے بھی گریز نہیں کیا تھا۔  یہ بچی اسکول جا رہی تھی اور ان یہودیوں کے مطابق اس نے نامناسب کپڑے پہن رکھے تھے۔ سیویا گرین فیلڈ ایک اسرائیلی تنظیم میفنے کی سربراہ ہے۔ یہ تنظیم جمہوریت اور خواتین کے حقوق کے لیے سر گرم ہے، گرین فیلڈ کہتی ہیں، ’’ قدامت پسند یہودیوں کی کمیونٹی دوسرے طبقات پر بھی اپنے نظریات کا نفاذ چاہتی ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کو مجبور کرنا کہ وہ آپ کی طرح زندگی گزاریں، درست سیاسی عمل نہیں ہے۔ لیکن حقیقت میں یہی ہو رہا ہے۔ یہ بڑھتی ہوئی کمیونٹی ہے اور پورے ملک میں پھیلتی جا رہی ہے، جو دوسروں پر اپنے طرز زندگی کا نفاذ چاہتے ہیں۔‘‘ آزاد خیال اسرائیلی اب اپنے حقوق سلب کیے جانے سے خوفزدہ نظر آتے ہیں۔ حریدی یہودیوں کے خلاف ایک مظاہرے کے دوران پلے کارڈز پر لکھا گیا تھا ’’ہم تہران نہیں بننا چاہتے‘‘۔ تل ابیب میں قائم مائیکرو انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ روبی تیتھنسن کا کہنا ہے کہ صورتحال تہران جیسی نہیں ہو گی۔ ان کے مطابق اسرائیل کے تمام گروہوں کو باہمی احترام سے رہنا ہوگا۔ روبی تیھنسن کہتے ہیں کہ اسرائیل کا نظام چلانے کے لیے ہر گروپ کو اپنی حد کا خیال رکھنا ہو گا اور یہ قانون قدامت پسند یہودیوں کے لیے بھی ہونا چاہیے۔

مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں امریکہ اور اسرائیل راکٹوں سے کیے جانے والے ممکنہ حملوں سے بچاؤ کے لیے ایک مشترکہ فوجی تربیتی پروگرام پر عملدرآمد کے خواہش مند ہیں۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے تصدیق کر دی ہے کہ اس فوجی تربیتی منصوبے کے تحت دونوں ملک اس طرح کے فرضی حالات کا سامنا کریں گے، جیسے اسرائیل پر راکٹوں سے حملہ کر دیا گیا ہو۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق اس مشترکہ تربیتی پروگرام کے لیے ہزاروں امریکی فوجی پہلے ہی اسرائیل پہنچ چکے ہیں۔ کیونکہ کثیر تعداد میں اسرائیلی فوجی اس ممکنہ جنگ میں مارے جانے کی وحشت،خوف اور دہشت کے سبب سے قبل از وقت ریٹائر مینٹ لے کر ملک کو چھوڑ کر جا رہے ہیں، کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس جنگ میں سوائے شکت کے کچھ نہیں کیوں کہ اب مقابلہ حقیقی مسلمانوں سے ہے

اسرائیلی حکومت نے کہا ہے کہ ہیکنگ کی کوشش ملکی خود مختاری پر حملے کی مترادف ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ سائبر حملہ دہشت گردی کی طرح ہے اور ہیکرز کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔اسرائیل نے اپنے لاکھوں شہریوں کے کریڈٹ کارڈز کی معلومات عام کرنے والے ہیکر کو سخت کارروائی کی دھمکی دی ہے۔ اسرائیلی نائب وزیر خارجہ ڈینی آیالون نے کہا ہے کہ شہریوں کی معلومات چوری کرنا یا سائبر اٹیک اسرائیلی خود مختاری پر حملے کے برابر ہے اور اس کا جواب بھی اسی انداز میں دیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر اسرائیل کوکوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا تو اسرائیل کے پاس ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ نائب وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ایسا کرنے والا چاہے انفرادی سطح پر یہ کام کرے یا کوئی تنظیم اس کے پس پردہ ہو ، کارروائی سے نہیں بچ سکے گا۔ اس تناظر میں انہوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔اسرائیلی شہریوں کا ڈیٹا چوری کرنے والے ہیکر نے بتایا ہے کہ وہ سعودی عرب میں رہائش پذیر ہے اور اس نے اسرائیل کی تجارتی ویب سائٹس کو ہی نشانہ بنایا ہے۔ 0x0mar ’آکس عمر‘ نامی ہیکر نے چار لاکھ اسرائیلی باشندوں کا ڈیٹا چوری کر کے انٹرنیٹ پر عام کر دیا تھا۔ اس حوالے سے کریڈٹ کارڈ کمپنیوں نے بتایا  ہےکہ ان میں 25 ہزار کارڈز کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے ای میل کے ذریعے 0x0mar سے ایک انٹرویو کیا ہے۔ماہرین نے اس دوران ہیکر کو ٹریک کرنے کے بعد بتایا کہ یہ ایک 19سالہ نوجوان ہے، جو متحدہ عرب امارات کا شہری ہے اور آج کل  میکسیکو میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ رپورٹس کے مطابق اسرائیل نے ابھی تک اس سلسلے میں میکسیکو کے حکام سے رابطہ نہیں کیا ہے۔حماس نے ہیکنگ کی اس کارروائی کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے مزید سائبر حملے ہونے چاہیئں۔ حماس نے ایک بیان میں کہا کہ عرب نوجوان اسرائیلی دھمکی سے نہ ڈریں اور ورچوئل دنیا کے تمام ذرائع استعمال کرتے ہوئے اسرائیلی جرائم کو بے نقاب کریں۔ حکومتی اور کریڈٹ کارڈ کمپنیوں نے بتایا ہے کہ معلومات عام کرنے سے نقصان بہت زیادہ نہیں ہوا۔ اسرائیل پر اس سے قبل بھی سائبر حملے ہو چکے ہیں اور اس دوران سرکاری ویب سائٹس کو ہیک کرنے کی کوششیں کی گئی تھیں۔

فلسطین کی منتخب اور قانونی حکومت کے وزیراعظم اسماعیل ہنیہ نے کہا ہے کہ حماس کبھی بھی صیہونی حکومت کو تسلیم نہیں کرے گي۔ تیونس سے قطر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسماعیل ہنیہ نے شہر تیونس کے اسٹیڈیم میں ہزاروں افراد سے خطاب میں کہا کہ حماس اسرائيل کو ہرگز تسلیم نہیں کرے گی اور نہ ہی فلسطین کی ایک بالشت زمین سے چشم پوشی کرے گی۔ اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ اب مصر اور تیونس صیہونی حکومت کے حلیف نہیں رہے ہیں اور صیہونی حکومت بڑے برے دن گذار رہی ہے۔ انہوں نے عرب ملکوں میں جاری انقلابوں کے حامیوں سے کہا کہ آزاد فلسطینی ریاست کی تشکیل کے لئے جد وجہد کریں۔ قابل ذکر ہے کہ غزہ پٹی کے محاصرے کے بعد سے اسماعیل ہنیہ کا یہ پہلا بیرونی دورہ ہے، انہوں نے تیونس سے قبل سوڈان اور ترکی کا بھی دورہ کیا تھا۔ ادھر تحریک حماس کے ترجمان نے الفتح تنظیم کی جانب سے قومی مصالحتی معاہدے کو ختم کرنے کی دھمکیوں کی مذمت کی ہے۔ حماس نے کہا ہے کہ الفتح کی ان دھمکیوں سے ظاہرہوتا ہے کہ وہ قومی مصالحتی معاہدے کو توڑنے اور نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

خلیج فارس میں ایران کی طاقتورولایت نامی فوجی مشقوں کے رد عمل میں اسرائيل نے امریکہ کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ خلیج فارس میں ایران کی طاقتورولایت نامی  فوجی مشقوں کے رد عمل میں اسرائيل نے امریکہ  کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ مشقیں بڑے پیمانے پر ہوں گی۔ تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ مشقیں کب شروع کی جائیں گے۔ آئسٹر چیلنج 12 نامی ان مشقوں سے متعلق یہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا ہے کہ جب خطے میں ایران نے حال ہی میں ولایت نامی فوجی مشقیں منعقد کی ہیں البتہ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ امریکہ کے ساتھ اْن کی یہ فوجی مشقیں پہلے سے طے تھیں اور ان کا کسی واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ ایران کی دس روزہ مشقوں سے امریکہ اور اس کے اتحادی سخت وحشت میں مبتلا ہوگئے ہیں

فلسطین کے وزیراعظم اسماعیل ہنیہ نے ترکی کے دورے کے دوران ترک وزیر اعظم کے علاوہ ترکی کی پارلیمان کے نمائندوں سے بھی ملاقات اور گفتگو کی ہے۔ترک ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ فلسطین کے وزیراعظم اسماعیل ہنیہ نے ترکی کے دورے کے دوران ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوغان کے علاوہ ترکی کی پارلیمان کے نمائندوں سے بھی ملاقات اور گفتگو کی ہے۔ اس ملاقات میں ترکی کے وزیر اع‏ظم اردوغان بھی موجود تھے۔ہنیہ نے ترکی کے نمائندوں کو فلسطین کی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور صہیونی ملکر بیت المقدس کو یہودی بنانے کی کوشش کررہے ہیں اور فلسطین اور امت اسلامی کے لئے یہ سب سے  عظيم خطرہ ہے۔ ہنیہ نے ترک عوام کی طرف سے فلسطینیوں کی حمایت پر تھبی شکریہ ادا کیا۔

تہران: ایران نے کہا ہے کہ خطے میں تمام مسائل کا باعث اسرائیل ہے۔ مغربی طاقتیں تہران کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے کیلئے اس پر دبائو ڈال رہی ہیں۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ علی اکبر صالحی نے ترک فلسطین پارلیمانی فرینڈ شپ گروپ سے تہران میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں تمام مسائل کا باعث اسرائیل ہے۔ انہوں نے کہا کہ صہیونی ریاست کی بنیاد ہی انتشار پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی کنارے میں یہودی تعمیرات جاری رہنا انتہائی قابل مذمت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں او آئی سی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی اپنا حق صرف مزاحمت سے ہی حاصل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بعض مغربی طاقتیں ایران کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے کے لیے تہران پر دبائو ڈال رہی ہیں۔

بیت المقدس: اسرائیل ایران کے ساتھ جنگ کی صورت میں اپنی جوہری تنصیب پر ممکنہ حملے کے خدشے کے پیش نظر ایٹمی ری ایکٹر بند کر دیگا۔ ایک اسرائیلی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایران کے ساتھ جنگ کی صورت میں اسرائیل کو اپنی جوہری تنصیبات پر میزائل حملوں کا خدشہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی جوہری توانائی کمیشن نے اس خدشے کے پیش نظر جنگ کی صورت میں ڈائمونا ری ایکٹر کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل راکٹ حملوں کو جنگ کے دوران استعمال کرنے سے گریز کریگا۔

یروشلم : اسرائیل نے ایران کے ایٹمی پلانٹ پر حملے کیلئے تیاریاں شروع کر دی ہیں اور اس کے جارح وزیراعظم بنجمن نتن یاہو کابینہ میں اس کی حمایت کیلئے وزراء کو رضا مند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں انہیں بہت حد تک کامیابی حاصل ہو چکی ہے ، اسرائیلی اخبار ” ہارئز “ کے مطابق وزیر دفاع ایہود بارک کی فعال حمایت کے ساتھ وزیراعظم یاہو ایران پر حملے کیلئے قوم پرست وزیر خارجہ لائبرمین کی حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے ہیں اس طرح انہیں کابینہ کی اکثریت کی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔ 

کراچی : امریکا میں سعودی سفیر کے قتل کی سازش موساد اور سی آئی اے کی مشترکہ کارستانی ہے، امریکا، ایران اور سعودی عرب کے درمیان اعتماد اور اسلامی بھائی چارے کے رشتوں کو پسند نہیں کرتا، اسرائیل ایران کے نیوکلیئر پروگرام سے پریشان ہے، ایران کے خلاف امریکی حکام کی سازشیں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ ان خیالات کا اظہار تہران سے امور دفاع کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے گفتگو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ شیطان امریکا اور بزدل اسرائیل مسلمانوں کو لڑانے کیلئے نت نئے حربے استعمال کرتے آئے ہیں، سعودی عرب ہمارے لئے قابل قدر ملک ہے، مسلمانوں کا امریکا دشمن ہے، امریکا نے پورے عرب کی دولت کو لوٹنے کا پروگرام بنایا ہے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ ایران سعودی عرب کے خلاف پہلے تھا، نہ اب ہے، ہمارے درمیان بحرین میں بھی امریکا اور یورپی ممالک غلط فہمیاں پیدا کرنے کے درپے ہیں۔

قبوضہ بیت المقدس ( اے ایف پی ) اسرائیلی وزیر خارجہ لائبرمین رشوت اور بدعنوانی کے الزام میں عدالتی کارروائی کا سامنا کریں گے ، وزارت انصاف کے مطابق ان کے خلاف مقدمہ کی کارروائی وسط جنوری میں شروع ہوگی اور وزیر خارجہ اپنے خلاف فرد جرم کا جواب دیں گے ، ان پر فراڈ، حلف کی خلاف ورزی، رشوت میں کچھ وصول کرنا، منی لانڈرنگ اور شہادتوں کو ضائع کرنے کے الزامات ہیں۔

لیبیا کے سابق مقتول رہ نما معمر قذافی کی بیٹی عائشہ قذافی نے اسرائیلی حکومت سے سیاسی پناہ کی درخواست کی ہے۔ایک عربی ویب سائٹ نے اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے حوالے سیانکشاف کیا ہے کہ عائشہ قذافی نے تل ابیب کے اعلی سیاسی عہدیداران سے انہیں اسرائیل میں داخل ہونے کی اجازت دینے کی اپیل کی ہے۔ عائشہ قذافی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ الجزائر کی حکومت انہیں کسی بھی وقت نئی لیبیائی حکومت کے سپرد کر سکتی ہے جہاں ان کا عدالتی ٹرائل کیا جائے گا۔ اسرائیلی سیٹلائٹ چینل کے مطابق عائشہ قذافی نیاسرائیل سے سیاسی پناہ طلب کرنے کے لیے سابق امریکی اٹارنی نک کا فمین کی خدمات حاصل کی ہیں۔ عائشہ قذافی کا کہنا ہے کہن وہ اس وقت اسرائیل کو اپنے لیے سب سے محفوظ ملک سمجھتی ہیں

مقبوضہ بیت المقدس…اسرائیل نے مصرمیں آئندہ آنے والی اسلام پسند حکومت کا مقابلہ کرنے کی تیاری شروع کر دی، اسرائیل کو خدشہ ہے کہ اس کا مصر سے تعلقات ویسے نہیں رہینگے جیسے سادات اور مبارک کے دور حکومت میں تہے۔ایک اسرائیلی اخبار کے مطابق مصر میں دینی جماعتوں کی پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کے بعد اسرائیل کو سخت تشویش لاحق ہے اور ان کی حکومت کے قیام کے امکانات کے بعد قاہرہ کے ساتھ نئے انداز میں تعلقات کے لیے پیش بندی شروع کر دی ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ اسرائیلی فوج کا ایک بڑا حصہ جسے انتہا پسند یہودی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے ،مصر کے ساتھ “ٹرننگ پوائنٹ” کی تیاری کا حامی ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں فوج کا دوسرا گروپ فوری طور پر مصر کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی کا حامی نہیں بلکہ اسکا موقف ہے کہ فی الحال مصر اور اسرائیل کے درمیان طے پائے سابقہ معاہدوں پر عملدرآمد تک انتظار کیا جائے۔ نئے منصوبے کے تحت صہیونی فوج کی بڑی تعداد کو جزیرہ نماء سینا میں حالت جنگ میں تعینات کیا جائیگا۔ حالانکہ مصر اسرائیل امن معاہدے میں یہ شرط رکھی گئی تھی اسرائیل اور مصر دونوں اپنے اپنے زیرانتظام جزیرہ سینا میں فوج کو مسلح حالت میں نہیں رکھیں گے۔ تاہم اس شرط کے باوجود اسرائیلی فوج کی بڑی تعداد کو اسلحہ سمیت جزیرہ نما سیناء میں تعینات کیا گیا ہے۔ اسرائیل کو خدشہ ہے کہ شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف کسی بیرونی حملے کی صورت میں لبنانی حزب اللہ کے ارکان جزیرہ نما سینا کے راستے اسرائیل میں داخل ہو کرصہیونی مفادات کو نقصان پہنچا سکتے۔