Archive for the ‘African Region’ Category

واشنگٹن: نائیجیریا کی وزیر خزانہ اور عالمی بینک کی صدارت کی امیدوار نگوزی اوکونجو آئویلہ نے کہا ہے کہ امریکہ اس روایت کو توڑے کہ ہمیشہ کوئی امریکی ورلڈ بینک کی سربراہی کرے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق انہوں نے یہ بات ورلڈ بینک کے بورڈ کے سامنے ساڑھے تین گھنٹے کے انٹرویو کے بعد کہی۔ نگوزی اوکونجو آئویلہ نے کہا کہ عالمی بینک کی سربراہی کا معیار اہلیت اور مہارت پر ہونا چاہئے۔ انہوں نے اپنے انٹرویو کے دوران بورڈ پر واضح کیا ہے کہ انتخاب کا طریقہ کار واضح اور شفاف ہونا چاہئے۔ انہوں نے ممالک سے حمایت طلب نہیں کی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ اور یورپ کے غیر رسمی معاہدے کے تحت ہمیشہ ورلڈ بینک کی سربراہی کسی نہ کسی امریکی کے پاس رہے گی جبکہ عالمی مالیاتی فنڈ کا سربراہ یورپی ہوگا۔ چین، بھارت اور برازیل جیسی ابھرتی ہوئی معیشتیں طویل عرصے سے جاری مالیاتی اداروں میں اثر و رسوخ کی روایت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ نائیجیریا کی وزیر خزانہ نے گزشتہ سال عالمی بینک کا عہدہ چھوڑا تھا۔ عالمی بینک کی صدارت کیلئے کولمبیا کے سابق وزیر خزانہ اور امریکہ کی طرف سے نامزد کوریا نژاد امریکی شہری ان کے مدمقابل امیدوار ہیں۔

موغا ديشو … صوماليہ کے ايک تھيٹر ميں خود کش حملے ميں قومي اولمپک کميٹي کے سربراہ اور حکومتي وزير سميت 7 افراد ہلاک ہوگئے ہيں. دار الحکومت موغاديشو ميں پوليس اہلکاروں کے مطابق ايک خود کش حملہ آور نے تقريب کے دوران خود کو تھيٹر کي عمارت کے اندر دھماکے سے اڑا ديا. صومالہ ميں سرکاري ٹيلي ويژن کے ذرائع کے مطابق قومي اولمپک کميٹي کے سربراہ اور ايک حکومتي وزير ہلاک ہونے والوں ميں شامل ہيں. يہ تھيٹر 1990 ميں خانہ جنگي کے آغاز کے بعد بند کر ديا گيا تھا اور گزشتہ ماہ ہي دوبارہ کھولا گيا تھا.

اسلام آباد:  افریقی ملک کانگو کے دارالحکومت برازاویل میں اسلحے کے ایک ڈپو میں ہونے والے زوردار دھماکوں کے باعث کم سے کم 206 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے ہیں۔دھماکے اس قدر زور دار تھے کے ان کی آواز میلوں دور سرحد کے پار جمہوریہ کانگو کے دارلحکومت کنشا سا میں بھی سنی گئی۔برازاویل میں ایک یورپی سفیر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہم نے فوجی ہسپتالوں میں کم سے کم 200لاشوں کو گنا ہے اور پندرہ سو کے قریب افراد زخمی ہیں جن میں سے کئی کی حالت تشویش ناک ہے۔صدر کے دفتر کے ایک اہلکار نے ہلاک ہونے والوں کی تعداد دو سو کے قریب بتائی ہے جبکہ فرانسیسی سفارت خانے کے ایک ڈاکٹر کے مطابق پانچ سو کے لگ بھگ افراد زخمی ہیں۔کانگو کے حکومتی ریڈیو پر وزیرِ دفاع چارلس زاچری بووا کا کہنا تھا کہ دارلحکومت میں دھماکے اسلحے کے ایک ڈھیر میں آگ لگنے کی وجہ سے ہوئے۔ انہوں نے شہریوں سے اطمینان رکھنے کو کہا۔ان کا کہنا تھا آپ نے جو دھماکے سنے ہیں ان کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ملک میں مارشل لاء لگا ہے یا جنگ چھڑ گئی ہے۔ نہ ہی کوئی بغاوت شروع ہو گئی ہے بلکہ یہ ایک اسلحے کے ڈھیر میں آگ لگنے کے باعث دھماکے ہونے کا واقعہ ہے۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ فوجیوں اور پولیس نے جائے حادثہ کی ناکہ بندی کی دی ہے۔اگرچہ ماضی میں کانگو کو مارشل لاء اور خانہ جنگی کا سامنا رہا ہے لیکن انیس سو نوے کی دہائی کے بعد سے کانگو میں زیادہ تر امن ہی رہا ہے۔

جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن مینڈیلا کو متواتر پیٹ کی تکلیف کے باعث ہسپتال داخل کردیا گيا ہے۔ رائٹرز کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن مینڈیلا کو متواتر پیٹ کی تکلیف کے باعث ہسپتال داخل کردیا گيا ہے۔ اطلاعات کے مطابق  ترانوے سالہ سابق صدر کے پیٹ میں تکلیف کی شکایت کافی عرصے سے موجود تھی جس کے وجہ سے انہیں ہسپتال میں داخل کیا گیا۔صدارتی ترجمان کے مطابق اب وہ بہتر محسوس کر رہے ہیں اور خوشگوار مزاج میں ہیں۔

نائجیریا کے مسلم اکثریتی آبادی والے شمالی حصے میں جمعے کی شام ہونے والے متعدد بم دھماکوں میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر ایک پچاس سے تجاوز کرگئی۔خبر ایجنسی اے پی کے مطابق مختلف مقامات پر متعدد بموں اور خود کار ہتھیاروں سے کیے گئے یہ سلسلہ وار حملے ملک کے شمالی حصے کے سب سے بڑے اور مجموعی طور پر دوسرے سب سے زیادہ آبادی والے شہر کانو میں کیے گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق ان حملوں کے دوران کانو کے شہر میں بار بار دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں اور شہر کے متعدد حصے فائرنگ کی آوازوں سے گونجتے رہے۔ بین الاقوامی رضا کار ادارے ریڈ کراس کے مطابق بد امنی کے سبب ایک سو پچاس سے زائد انسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ ان حملوں کے فوری بعد حکام نے کانو میں حالات کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لیے کرفیو لگا دیا ہے۔ کانو کی آبادی نو ملین کے قریب ہے اور اس شہر کو خاص طور پر انتہا پسند مسلمانوں کے بوکو حرام نامی گروپ کی پر تشدد کارروائیوں کا سامنا ہے۔ نائجیریا کے اکثر نامور مسلمان مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کا تعلق اسی شہر سے ہے۔کانو سے موصولہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ یہ حملے مقامی وقت کے مطابق شام پانچ بجے شروع ہوئے اور شہر میں فائرنگ کی آوازیں مسلسل سنائی دیتی رہیں۔ مختلف خبر ایجنسیوں کے مطابق یہ حملے کانو میں بوکو حرام کی پہلی بڑی اور مربوط لیکن کئی مقامات پر کی جانے والی کارروائی ہیں۔ان حملوں کے دوران ایک بڑا بم دھماکہ شہر میں پولیس کے علاقائی ہیڈ کوارٹرز پر بھی کیا گیا، جو اتنا شدید تھا کہ اس کے نتیجے میں دور دور تک کھڑی گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ امریکی خبر ایجنسی اے پی کے نمائندے کے مطابق یہ حملہ ایک خود کش کار بم حملہ تھا جس میں ایک انتہا پسند اپنی گاڑی کے ساتھ پولیس ہیڈ کوارٹرز کے کمپاؤنڈ میں گھس گیا جہاں اس نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ پولیس کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ امینو رِنگیم کے بقول اس دھماکے سے پولیس ہیڈ کوارٹرز کی چھت اڑ گئی اور عمارت کے دیگر حصوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ نائجیریا میں نیشنل ایمرجنسی مینیجمنٹ ایجنسی کے اہلکار ابوبکر جبریل نے بتایا کہ ان حملوں کے دوران شہر میں تین پولیس اسٹیشنوں کو بھی بم دھماکوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ ایک بم حملہ ریاستی سکیورٹی سروس کے علاقائی صدر دفاتر پر بھی کیا گیا۔کانو سے موصولہ دیگر رپورٹوں کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ایک صحافی کے علاوہ کم از کم تین پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ ان حملوں کے دوران ایک پاپسورٹ آفس پر کیے گئے بم حملے میں کم ازکم تین امیگریشن اہلکاروں اور متعدد شہریوں کی ہلاکت کی رپورٹیں بھی ملی ہیں۔ شہر میں اس وقت 24 گھنٹے کا کرفیو نافذ ہے اور عام شہری اپنے گھروں میں چھپے ہوئے ہیں۔ خدشہ ہے کہ مرنے والوں کی حتمی تعداد کافی زیادہ ہو سکتی ہے، جس کا اصل اندازہ کرفیو اٹھائے جانے کے بعد ہی لگایا جا سکے گا۔ ان حملوں کے بعد بوکو حرام کے ایک ترجمان نے صحافیوں کے نام ایک پیغام میں کہا کہ یہ منظم حملے بوکو حرام کی کارروائی ہیں، جو اس لیے کی گئی کہ ریاستی حکومت نے اس گروپ کے پولیس کی زیر حراست ارکان کو چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔

امریکی صدر باراک اوباما نے اسلامی جمہوریہ ایران پر دباؤ میں شدت پیدا کرنے کی تاکید کرتے ہوۓ دعوی کیا ہے کہ تہران اس وقت شدید پابندیوں کی زد میں ہے۔ باراک اوباما نے مزید دعوی کیا کہ ایران آج عالمی سطح پر الگ تھلگ ہوچکا ہے جبکہ عالمی برادری متحد ہے اور تہران پر شدید ترین پابندیاں لگائي جا چکی ہیں۔ امریکی حکام جن پابندیوں کی بات کررہے ہیں ان میں ایران کے تیل اور سنٹرل بینک پر لگائي جانے والی پابندیاں سرفہرست ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب یورپی یونین میں واشنگٹن کے قریبی اتحادی بھی ایران پر لگائي جانے والی پابندیوں کے سلسلے میں امریکہ کا ساتھ دینے کے بارے میں تشویش میں مبتلاء ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایران کے تیل پر پابندی سے امریکہ اور اس سے بڑھ کر یورپ کے اقتصاد پر بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب مشرق وسطی کی تیزی سے بدلتی ہوئي صورتحال اور اس خطے میں امریکہ کی مداخلت کی وجہ سے توانائی کے بارے میں مختلف خدشات پاۓ جاتے ہیں۔ بہت سے ماہرین کا کہنا ہےکہ باراک اوباما اس طرح کے بیانات کے برعکس ایران کے خلاف لگائی جانے والی یکطرفہ پابندیوں کی وجہ سے تشویش میں مبتلاء ہیں لیکن چونکہ وائٹ ہاؤس پر صیہونی لابی کا دباؤ ہے اس لۓ وہ آئندہ کے صدارتی انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لۓ ایران سے متعلق امریکہ کی خارجہ پالیسی کو ایک حربے کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ اس لۓ امریکی حکام کے رویۓ کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ البتہ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ روس اور چین جیسے ممالک کہ جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ہیں یا یورپی یونین کے اراکین ، کہ جن کو وائٹ ہاؤس اپنے اتحادی قرار دیتا ہے اس سلسلے میں واشنگٹن کی پیروی گے۔ اقتصادی اور سیاسی مبصرین کا کہنا ہےکہ خطے میں قیام امن کے سلسلے میں ایران کے کلیدی کردار کے پیش نظر اور توانائی کا اہم حصہ برآمد کرنے والا ملک ہونے کے ناتے نیز دوسری متعدد وجوہات کی بنا پر ایران پر دباؤ کے لۓ امریکہ کے منظور نظر اتحاد کی تشکیل کا دعوی بالکل بے بنیاد ہے۔ اور یہ جو جمعے کے دن برسلز میں یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں تہران کے خلاف زیادہ پابندیوں کا مطالبہ کیا گيا لیکن ان پابندیوں پر عملدرآمد کو آئندہ مہینوں تک کے لۓ ملتوی کردیا گيا ہے تو اس سے بھی ہماری اسی بات کی ہی تصدیق ہوتی ہے۔ یورپی یونین کے وزراۓ خارجہ نے گزشتہ ہفتے ایران کی توانائی ، بینکنگ اور نقل و حمل کے شعبوں میں نئی پابندیوں سے اتفاق کیا تھا لیکن اٹلی ، یونان اور اسپین سمیت بعض ممالک نے اس بارے میں اپنی شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب امریکہ برسوں سے ایران کو نقضان پہنچانے کے لۓ اپنے تمام تر وسائل بروۓ کار لا رہا ہے۔ اور اس مقصد کے حصول کے لۓ امریکی کانگریس سالانہ دوسو ملین ڈالر کا بجٹ مختص کرتی ہے۔ امریکہ نے یورپی یونین کے بعض ممالک اور جاپان کی مدد سے ایران کے خلاف نئی پابندیوں کے لۓ اقدامات انجام دیۓ ہیں اور ایران کی بعض کمپنیوں ، بینکوں ، افراد حتی ایٹمی ماہرین پر پابندیاں لگا رکھی ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد میں ذکر شدہ ایران کے بعض ایٹمی سائنسدانوں پر دہشتگردانہ حملے کر کے ان کو شہید بھی کردیا گیا ہے ۔ بہرحال ایران کے خلاف امریکہ کے مخفی اور علانیہ اقدامات کا سلسلہ جاری ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے اقدامات کا نتیجہ امریکہ کی مزید ذلت و رسوائی کے سوا کچھ اور برآمد ہونے والا نہیں ہے۔

ان دنوں امریکہ کے ایران مخالف اقدامات میں وسعت آگئی ہے ۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے  بی بی سی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوۓ اس سلسلے میں ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے اور ایران کے داخلی مسائل کا ذکر کرتے ہوۓ دعوی کیا ہےکہ امریکی حکومت ایرانی عوام کی حمایت کرتی ہے۔ ہلیری کلنٹن نے کہا کہ واشنگٹن بقول ان کے ایرانیوں کے ساتھ رابطہ برقرار کرنے کے لۓ  ایک آن لائن سفارت خانہ قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ ایرانیوں کے لۓ امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے اور امریکہ آنے کے لۓ ویزہ حاصل کرنے سے متعلق معلومات فراہم کرنےکا آسان راستہ ہموار کرسکے۔ امریکی وزارت خارجہ نے دوسرے ممالک کے امور میں مداخلت کا یہ نیا دروازہ کھول کر منگل کے دن اعلان کیا کہ ویب سائٹ پر ایران میں امریکہ کا آن لائن سفارت خانہ قائم کردیا گيا ہے جو ایران اور امریکہ کے درمیان اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد  براہ راست تعلقات کے منقطع ہونے کے بعد اب ایرانی عوام اور امریکہ کے درمیان ایک پل کا کام دے سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان رامین مہمان پرست نے امریکہ کے اس اقدام کے خلاف اپنا ردعمل ظاہرکیا ہے اور وائٹ ہاؤس کے اس طرح کے اقدامات کو پرفریب قرار دیتے ہوۓ کہا ہے کہ ان اقدامات سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ امریکی حکومت اس بات کی معترف ہے کہ اس نے ایران کے ساتھ تعلقات منقطع کرکے اور ملت ایران سے روگردانی کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اس کے ساتھ رامین مہمان پرست نے یہ بھی کہا ہےکہ امریکی حکومت کے اس طرح کے اقدامات سے نہ تو اس غلطی کا ازالہ ہوگا اور نہ ہی جیسا کہ کہا گیا ہے امریکہ کا پیغام ملت ایران تک منتقل ہوگا۔ رامین مہمان پرست نے امریکی حکومت کو نصیحت کی کہ وہ ماضی سے سبق سیکھ کر ایران کی عظیم ملت کے سلسلے میں نیک نیتی کے ساتھ اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں لاۓ۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے گزشتہ بتیس برسوں کے دوران اسلامی بیداری کے مرکز اسلامی جمہوری نظام کو نقصان پہنچانےکی بہت زیادہ کوشش کی ہے۔ امریکی حکام ایسی حالت میں اپنے آپ کو ایرانی عوام کا ہمدرد ظاہر کرنے اور اپنے خیال باطل کےمطابق اسلامی نظام اور عوام کے درمیان فاصلہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں کہ جب وہ ملت ایران کے خلاف کی جانے والی بہت سی سازشوں اور دہشتگردانہ واقعات میں ملوث ہیں۔ اب بھی امریکی وزارت خارجہ نے آئن لائن سفارت خانے کے قیام اور اس کے جواز کے سلسلے میں کہا ہے کہ تمام اعتراضات اور مخالفتوں کے باوجود امریکہ بقول ان کے ایرانی عوام اور ایرانی معاشرے کے ساتھ رابطہ برقرار کرنے کی اپنی کوشش جاری رکھے گا۔ حقیقت یہ ہےکہ ملت ایران کے ساتھ براہ راست مقابلے میں ناکامی کے بعد امریکی حکام اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ ان کو ایران کے عوام اور نظام کے درمیان اختلافات ڈال کر ایران کو اندر سے کھوکھلا اور کمزور کرنے کے نظریۓ پر عمل کرنا چاہۓ۔ واضح رہے کہ امریکہ پہلے بھی اپنی اس طرح کی کوششوں میں ناکام ہوچکا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کا یہ اقدام کہ جسے امریکی وزارت خارجہ کے حکام آن لائن سفارت خانے سے تعبیر کررہے ہیں بین الاقوامی تعلقات اور حقوق میں غیر قانونی اقدام شمار ہوتا ہے اور واضح سی بات ہےکہ  ایران اس کے خلاف قانونی کارروائی پر مبنی اپنا حق محفوظ سمجھتا ہے۔

ایران الیکٹرانک وار فیئر کے حوالے سے اپنی اس جدید ٹیکنولوجی کے ذریعے امریکی فوج کی جانب سے بغیر پائلٹ ڈرون طیارون پر استوار اسٹریٹجی کو تہس نہس کرنے کی پوزیشن میں آ چکا ہے۔  امریکہ کے جدید ترین جاسوسی طیارے RQ 170 کا ایران کی مشرقی سرحد پر ایران آرمی کے ہاتھوں کنٹرول سنبھالے جانا اور اسے کمترین نقصان پہنچاتے ہوئے کامیابی سے لینڈ کر لینا اس ہفتے کی ایک بڑی خبر ثابت ہوئی ہے۔ امریکی وزارت دفاع پنٹاگون اور نیٹو نے بھی اس خبر کی تصدیق کی ہے اور اس پر اپنی شدید پریشانی کا اظہار بھی کیا ہے۔ یہ ڈرون طیارہ امریکہ کے جدید ترین ڈرون طیاروں میں شمار کیا جاتا ہے جسکے ذریعے انتہائی اہم جاسوسی مشن انجام پاتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ امریکہ نے اسکے بقول ایبٹ آباد میں واقع اسامہ بن لادن کے کمپاونڈ کی جاسوسی بھی اسی طیارے سے انجام دی تھی۔ اس جاسوسی طیارے کی ایک انتہائی اہم خصوصیت اسکی اسٹیلتھ ٹیکنولوجی یا دوسرے الفاظ میں ریڈار سے بچنے کی صلاحیت تھی۔ اسی صلاحیت کی بدولت نیٹو فورسز انتہائی اطمینان سے اسے اہم ترین جاسوسی مشنز کیلئے روانہ کرتے تھے اور خود امریکی حکام کے بقول یہ جاسوسی طیارہ اب تک افغانستان کے اڈوں سے کئی بار ایران کی سرحدوں میں داخل ہو کر اپنا مشن انجام دے کر کامیابی سے واپس افغانستان جا چکا تھا۔  سیاسی ماہرین کے خیال میں جو چیز امریکہ کیلئے شدید پریشانی اور بوکھلاہٹ کا باعث بنی ہے وہ محض اس جاسوسی طیارے کا ایران کے ہاتھ لگ جانا نہیں بلکہ ایران کے ریڈار سسٹم کا اس طیارے کو ڈیٹیکٹ کر لینا ہی امریکی وزارت دفاع اور نیٹو کے تحقیقاتی اداروں کیلئے انتہائی شدید صدمے اور دھچکے کا باعث بنا ہے۔ ایران آرمی کی الیکٹرانک وار یونٹ نے نہ فقط اس ڈرون طیارے کی موجودگی کو محسوس کر لیا بلکہ ایک بے مثال اور حیرت انگیز اقدام کے ذریعے اسکا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اسے لینڈ کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ یہ جاسوسی طیارہ جسکی موجودگی سے بھی دنیا بے خبر تھیاور امریکہ کے اہم ترین رازوں میں اسکا شمار ہوتا تھا اب اپنی تمام تر ٹیکنولوجی کے علاوہ ان حساس معلومات  کے ساتھ جو اس نے مختلف آپریشنز میں اپنے اندر ذخیرہ کر رکھے تھے اسلامی جمہوریہ ایران کے انقلابی اور باایمان جوانوں کے ہاتھ لگ چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں امریکی حکام اور فوجی کمانڈروں کی پریشانی اور بوکھلاہٹ ایک واضح امر ہے۔  فوجی ماہرین نے بھی ایران کی جانب سے امریکی ڈرون طیارے پر قبضے کی اصل وجہ ایران کے ڈیفنس سسٹم کو قرار دیا ہے اور اعتراف کیا ہے کہ ایران آرمی ایسی ٹیکنولوجی حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے جسکے ذریعے وہ بغیر پائلٹ جاسوسی طیاروں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے کے قابل ہو چکا ہے۔  مغربی ذرائع ابلاغ نے اس ہفتے اتوار 4 دسمبر کے دن اپنے نشریات میں اعلان کیا کہ ایک امریکی ڈرون طیارہ جو ایران کی مشرقی سرحد پر پرواز کرنے میں مصروف تھا اچانک گر کر تباہ ہو گیا ہے۔ ان ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ ڈرون طیارہ آر کیو 170 تھا جسے ایران ایئر ڈینفس سسٹم نے ایران اور افغانستان کے بارڈر ایریا میں مار گرایا ہے۔ بعض ذرائع جیسے سی این این نے اپنی رپورٹ میں اعلان کیا کہ یہ جاسوسی طیارہ کاشمر کے علاقے میں سرنگون ہوا ہے۔ اسی طرح سی این این نے امریکی وزارت دفاع کے بعض اہم عہدیداروں کے بقول بتایا کہ اس ڈرون میں انتہائی اہم اور خفیہ معلومات اور دستاویزات بھی موجود تھیں۔ بی بی سی نے اس واقعے کو “ایران اور امریکہ کے درمیان خاموش جنگ کا نیا مرحلہ” قرار دیا۔  روسی خبررساں ادارے ریانووسٹی نے اس بارے میں رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا  امریکی بغیر پائلٹ طیارہ اس وقت ایران کے قبضے میں ہے، یہ طیارہ ریڈار کے ذریعے بہت مشکل سے دکھائی دیتا ہے اور امریکہ عام طور پر اسے اپنے ایسے فوجی کمانڈروں کی مدد کیلئے استعمال کرتا ہے جو میدان جنگ میں اہم معلومات کے محتاج ہوتے ہیں”۔  ریانووسٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ایران اس جاسوسی طیارے کو کمترین نقصان پنچاتے ہوئے زمین پر اتارنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔  سب سے اہم ردعمل امریکی خبررساں ادارے وائس آف امریکہ کا تھا۔ وی او اے نے ایک امریکی فوج کے ایک اعلی سطحی عہدیدار کے بقول اس ڈرون کی سرنگونی کی تصدیق کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اسکی سرنگونی کی اصلی وجہ اسکا ہمارے کنٹرول سے خارج ہو جانا تھا۔  اسی دوران تہران میں فوجی ذرائع نے اس امریکی جاسوسی طیارے کا اپنے قبضے میں لینے کی خبر کی تصدیق کرتے ہوئے اعلان کیا کہ یہ پہلا امریکی جاسوسی طیارہ نہیں جسے ایران نے کامیابی سے سرنگون کیا ہے۔  یہ ذرائع ابلاغ گرائے جانے  کی اصطلاح کو استعمال کرنا صحیح نہیں سمجھتے کیونکہ درحقیقت ایران آرمی نے الیکٹرانک وار جیسی انتہائی پیچیدہ ٹیکنولوجی کو استعمال کرتے ہوئے اپنے سرحد کے قریب پرواز کرنے والے اس ڈرون کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیا اور اسکے بعد اسے اپنے علاقے میں اتارنے میں کامیاب ہوئے۔  ایک ذریعہ کا کہنا تھا: امریکی اس جاسوسی طیارے کی سرنگونی سے زیادہ اس ٹیکنولوجی کی بابت پریشان ہیں جس کے ذریعے ایران نے اس ڈرون کا کنٹرول سنبھال کر اسے اپنے علاقے میں اتارا ہے۔  یہ ذریعہ مزید کہتا ہے: امریکی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس جاسوسی طیارے کی جانب کسی قسم کی فائرنگ نہیں ہوئی اور ایران نے اسے ایسی حالت میں اپنے قبضے میں لیا ہے کہ اس میں موجود تمام معلومات اپنی اصلی حالت میں ہیں۔  ایک اہم فوجی ذریعے نے زیادہ وضاحت سے معذرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا  آج کے بعد ایران کی سرحدیں امریکی جاسوسی طیاروں کیلئے بالکل مناسب نہیں کیونکہ اب ایران کے پاس ایسی ٹیکنولوجی موجود ہے جسکے ذریعے ایک گولی بھی فائر کئے بغیر اور الیکٹرانک وار کے ذریعے ڈرون طیاروں کو اپنے کنٹرول میں لے کر اپنے علاقے میں لینڈ کروا سکتا ہے۔  اس موضوع کی اہمیت اس وقت زیادہ واضح ہوتی ہے جب ہم یہ جان لیں کہ گذشتہ تین سالوں کے دوران امریکہ کی فوجی اسٹریٹجی میں ڈرون طیاروں کا کردار انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے اور امریکی دنیا کے مختلف حصوں بالخصوص پاکستان، افغانستان، یمن اور صومالیہ میں ان ڈرون طیاروں کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں۔ امریکہ ان طیاروں کو جاسوسی مقاصد کیلئے بھی استعمال کرتا ہے اور انکے ذریعے دشمنوں کے ٹھکانوں کو بھی میزائل حملوں کا نشانہ بناتا ہے۔ امریکہ ایران کی سرحد کے قریب بھی ان طیاروں کا وسیع استعمال جاری رکھے ہوئے ہے۔  ایران الیکٹرانک وار فیئر کے حوالے سے اپنی اس جدید ٹیکنولوجی کے ذریعے امریکی فوج کی جانب سے بغیر پائلٹ ڈرون طیارون پر استوار اسٹریٹجی کو تہس نہس کرنے کی پوزیشن میں آ چکا ہے اور امریکی اب یہ اطمینان نہیں رکھ سکتے کہ ہوا میں اڑانے والے جاسوسی طیاروں کا کنٹرول ہمیشہ انکے ہاتھ میں ہی رہے گا اور وہ اپنا مشن مکمل کر کے کامیابی سے واپس انکے اڈے تک لوٹ سکیں گے۔  فوجی ماہرین کے نزدیک خطے میں امریکی فوج کی جانب سے جاسوسی طیاروں کے استعمال میں پیدا ہونے والی یہ محدودیت اور رکاوٹ ان کیلئے انتہائی سنجیدہ قسم کے مسائل کا سبب بن سکتی ہے

رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عازمین حج کے نام اپنے پیغام میں حج کے رموز کا ذکر کیا۔ آپ نے سرزمین وحی میں حاجیوں کی موجودگی کو بہترین موقعہ قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے معروضی حالات کے تحت حج سے بھرپور استفادہ کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔ پیغام حج میں قائد انقلاب اسلامی نے مسلمانوں کے اتحاد کی ضرورت پر تاکید کی اور سامراجی طاقتوں کی سازشوں اور اسلام مخالف عزائم کی نشاندہی کرتے ہوئے اہم ترین سفارشات کی ہیں۔ پیغام کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله ربّ العالمين وصلوات الله وتحياته على سيد الأنام محمد المصطفى وآله الطيبين وصحبه المنتجبين
اس وقت حج کی بہار اپنی تمام تر روحانی شادابی و پاکیزگی اور خداداد حشمت و شکوہ کے ساتھ آن پہنچی ہے اور ایمان و شوق سے معمور قلوب، کعبہ توحید اور مرکز اتحاد کے گرد پروانہ وار محو پرواز ہیں۔ مکہ، منا، مشعر اور عرفات ان خوش قسمت انسانوں کی منزل قرار پائے ہیں جنہوں نے “واذن فی الناس بالحج” کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے خدائے کریم و غفور کی ضیافت میں پہنچ کر سرفراز ہوئے ہیں۔ یہ وہی مبارک مکان اور ہدایت کا سرچشمہ ہے کہ جہاں سے اللہ تعالی کی بین نشانیاں ساطح ہوتی ہیں اور جہاں ہر ایک کے سر پر امن و امان کی چادر کھنچی ہوئی ہے۔ دل کو ذکر و خشوع اور صفاء و پاکیزگي کے زمزم سے غوطہ دیں۔ اپنی بصیرت کی آنکھ کو حضرت حق کی تابندہ آیات پر وا کریں۔ اخلاص و تسلیم پر توجہ مرکوز کریں کہ جو حقیقی بندگی کی علامت ہے۔ اس باپ کی یاد کو جو کمال تسلیم و اطاعت کے ساتھ اپنے اسماعیل کو قربانگاہ تک لے کر گئے، بار بار اپنے دل میں تازہ کیجئے۔ اس طرح اس روشن راستے کو پہچانئے جو رب جلیل کی دوستی کے مقام تک پہنچنے کے لئے ہمارے لئے کھول دیا گیا ہے۔ مومنانہ ہمت اور صادقانہ نیت کے ساتھ اس جادے پر قدم رکھئے۔
مقام ابراہیم انہیں آیات بینات میں سے ایک ہے۔ کعبہ شریف کے پاس ابراہیم علیہ السلام کی قدم گاہ آپ کے مقام و مرتبے کی ایک چھوٹی سی مثال ہے، مقام ابراہیم در حقیقت مقام اخلاص ہے، مقام ایثار ہے، آپ کا مقام تو خواہشات نفسانی، پدرانہ جذبات اور اسی طرح شرک و کفر اور زمانے کے نمرود کے تسلط کے مقابل استقامت و پائيداری کا مقام ہے۔ نجات کے یہ دونوں راستے امت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ہم سب افراد کے سامنے کھلے ہوئے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کی جرئت، بہادری اور محکم ارادہ اسے ان منزلوں کی طرف گامزن کر سکتا ہے جن کی طرف آدم سے لیکر خاتم تک تمام انبیائے الہی نے ہمیں بلایا ہے اور اس راستے پر چلنے والوں کے لئے دنیا و آخرت میں عزت و سعادت کا وعدہ کیا ہے۔ امت مسلمہ کی اس عظیم جلوہ گاہ میں، مناسب ہے کہ حجاج کرام عالم اسلام کے اہم ترین مسائل پر توجہ دیں۔ اس وقت تمام امور میں سرفہرست بعض اہم اسلامی ممالک میں برپا ہونے والا انقلاب اور عوامی قیام ہے۔ گذشتہ سال کے حج اور امسال کے حج کے درمیانی عرصے میں عالم اسلام میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ جو امت مسلمہ کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور مادی و روحانی عزت و پیشرفت سے آراستہ ایک روشن مستقبل کی نوید بن سکتے ہیں۔ مصر، تیونس اور لیبیا میں بد عنوان اور دوسروں پر منحصر ڈکٹیٹر تخت اقتدار سے گر چکے ہیں جبکہ بعض دوسرے ممالک میں عوامی انقلاب کی خروشاں لہریں طاقت و دولت کے محلوں کو نابودی و ویرانی کے خطرے سے دوچار کر چکی ہیں۔
ہماری امت کی تاریخ کے اس تازہ باب نے ایسے حقایق آشکارا کئے ہیں جو اللہ کی روشن نشانیاں ہیں اور ہمیں حیات بخش سبق دینے والے ہیں۔ ان حقایق کو اسلامی امہ کے تمام اندازوں اور منصوبوں میں مد نظر رکھا جانا چاہئے۔ سب سے پہلی حقیقت تو یہی ہے کہ جو اقوام کئی دہائیوں سے غیروں کے سیاسی تسلط میں جکڑی ہوئی تھیں ان کے اندر سے ایسی نوجوان نسل سامنے آئی ہے جو اپنے تحسین آمیز جذبہ خود اعتمادی کے ساتھ خطرات سے روبرو ہوئی ہے، جو تسلط پسند طاقتوں کے مقابلے پر آ کھڑی ہوئي ہے اور حالات کو دگرگوں کر دینے پر کمربستہ ہے۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ ان ملکوں میں الحادی فکر کے حکمرانوں کی ریشہ دوانیوں اور تسلط کے باوجود، دین کو مٹا دینے کی خفیہ و آشکارا کوششوں کے باوجود اسلام اپنے پرشکوہ اور نمایاں نفوذ و رسوخ کے ساتھ دلوں اور زبانوں کا رہنما بن گیا ہے اور دسیوں لاکھ کے مجمعے کی گفتار اور کردار میں چشمے کی مانند جاری ہے اور ان کے اجتماعات و طرز عمل کو تازگی اور گرمی حیات عطا کر رہا ہے۔ گلدستہائے آذان، عبادت گاہیں، اللہ اکبر کی صدائیں اور اسلامی نعرے اس حقیقت کی کھلی ہوئی نشانیاں اور تیونس کے حالیہ انتخابات اس حقیقت کی محکم دلیل ہیں۔ بلاشبہ اسلامی ممالک میں جہاں کہیں بھی غیرجانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات ہوں گے نتائج وہی سامنے آئيں گے جو تیونس میں سامنے آئے۔
تیسری حقیقت یہ ہے کہ اس ایک سال کے دوران پیش آنے والے واقعات نے سب پر یہ واضع کر دیا ہے کہ خدائے عزیز و قدیر نے اقوام کے عزم و ارادے میں اتنی طاقت پیدا کر دی ہے کہ کسی دوسری طاقت میں اس کا مقابلہ کرنے کی جرئت و توانائی نہیں ہے۔ اقوام اسی خداداد طاقت کے سہارے اس بات پر قادر ہیں کہ اپنی تقدیر کو بدل دیں اور نصرت الہی کو اپنا مقدر بنا لیں۔
چوتھی حقیقت یہ ہے کہ استکباری حکومتیں اور ان میں سر فہرست امریکی حکومت، کئی دہائیوں سے مختلف سیاسی اور سیکورٹی کے حربوں کے ذریعے خطے کی حکومتوں کو اپنا تابع فرمان بنائے ہوئے تھی اور دنیا کے اس حساس ترین خطے پر بزعم خود اپنے روز افزوں اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی تسلط کے لئے ہر طرح کی رکاوٹوں سے محفوظ راستہ بنانے میں کامیاب ہو گئی تھیں، آج اس خطے کی اقوام کی نفرت و بیزاری کی آماجگاہ بنی ہوئي ہیں۔
ہمیں یہ اطمینان رکھنا چاہئے کہ ان عوامی انقلابوں کے نتیجے میں تشکیل پانے والے نظام ماضی کی شرمناک صورت حال کو تحمل نہیں کریں گے اور اس خطے کا جیو پولیٹیکل رخ قوموں کے ہاتھوں اور ان کے حقیقی وقار و آزادی کے مطابق طے پائے گا۔ ایک اور حقیقت یہ ہے کہ مغربی طاقتوں کی منافقانہ اور عیارانہ طینت اس خطے کے عوام پر آشکارا ہو چکی ہے۔ امریکا اور یورپ نے جہان تک ممکن تھا مصر، تیونس اور لیبیا میں الگ الگ انداز سے اپنے مہروں کو بچانے کی کوشش کی لیکن جب عوام کا ارادہ ان کی مرضی پر بھاری پڑا تو فتحیاب عوام کے لئے عیارانہ انداز میں اپنے ہوٹوں پر دوستی کی مسکراہٹ سجا لی۔ اللہ تعالی کی روشن نشانیاں اور گراں قدر حقایق جو گذشتہ ایک سال کے عرصے میں اس خطے میں رونما ہوئے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہیں اور صاحبان تدبر و بصیرت کے لئے ان کا مشاہدہ اور ادراک دشوار نہیں ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود تمام امت مسلمہ اور خصوصا قیام کرنے والی اقوام کو دو بنیادی عوامل کی ضرورت ہے:
اول: استقامت کا تسلسل اور محکم ارادوں میں کسی طرح کی بھی اضمحلال سے سخت اجتناب۔ قرآن مجید میں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے اللہ کا فرمان ہے ” فاستقم کما امرت و من تاب معک و لا تطغوا” اور ” فلذلک فادع و استقم کما امرت” اور حضرت موسی علیہ السلام کی زبانی ” و قال موسی لقومہ استعینوا باللہ و اصبروا، ان الارض للہ یورثھا من یشاء من عبادہ و العاقبتہ للمتقین” قیام کرنے والی اقوام کے لئے موجودہ زمانے میں تقوی کا سب سے بڑا مصداق یہ ہے کہ اپنی مبارک تحریک کو رکنے نہ دیں اور خود کو اس وقت ملنے والی (وقتی) کامیابیوں پر مطمئن نہ ہونے دیں۔ یہ اس تقوی کا وہ اہم حصہ ہے جسے اپنانے والوں کو نیک انجام کے وعدے سے سرفراز کیا گيا ہے۔
دوم: بین الاقوامی مستکبرین اور ان طاقتوں کے حربوں سے ہوشیار رہنا جن پر ان عوامی انقلابوں سے ضرب پڑی ہے۔ وہ لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ نہیں جائیں گے بلکہ اپنے تمام تر سیاسی، مالی اور سیکورٹی سے متعلق وسایل کے ساتھ ان ممالک میں اپنے اثر و رسوخ کو بحال کرنے کے لئے میدان میں اتریں گے۔ ان کا ہتھیار لالچ، دھمکی، فریب اور دھوکہ ہے۔ تجربے سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ خواص کے طبقے میں بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن پر یہ ہتھیار کارگر ثابت ہوتے ہیں اور خوف، لالچ اور غفلت انہیں شعوری یا لاشعوری طور پر دشمن کی خدمت میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ نوجوانوں، روشنفکر دانشوروں اور علمائے دین کی بیدار آنکھیں پوری توجہ سے اس کا خیال رکھیں۔
اہم ترین خطرہ ان ممالک کے جدید سیاسی نظاموں کی ساخت اور تشکیل میں کفر و استکبار کے محاذ کی مداخلت اوراس کا اثر انداز ہونا ہے۔ وہ اپنی تمام توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ کوشش کریں گے کہ نو تشکیل شدہ نظام، اسلامی اور عوامی تشخص سے عاری رہیں۔ ان ممالک کے تمام مخلص افراد اور وہ تمام لوگ جو اپنے ملک کی عزت و وقار اور پیشرفت و ارتقاء کی آس میں بیٹھے ہیں، اس بات کی کوشش کریں کہ نئے نظام کی عوامی اور اسلامی پہچان پوری طرح یقینی ہو جائے۔ اس پورے مسئلے میں آئین کا کردارسب سے نمایاں ہے۔ قومی اتحاد اور مذہبی، قبایلی و نسلی تنوع کو تسلیم کرنا، آیندہ کامیابیوں کی اہم شرط ہے۔  مصر، تیونس اور لیبیا کی شجاع اور انقلابی قومیں نیز دوسرے ممالک کی بیدار مجاہد اقوام کو یہ جان لینا چاہئے کہ امریکا اور دیگر مغربی مستکبرین کے مظالم اور مکر و فریب سے ان کی نجات کا انحصار اس پر ہے کہ دنیا میں طاقت کا توازن ان کے حق میں قائم ہو۔ مسلمانوں کو دنیا کو ہڑپ جانے کے لئے کوشاں ان طاقتوں سے اپنے تمام مسائل سنجیدگي سے طے کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خود کو ایک عظیم عالمی طاقت میں تبدیل کریں اور یہ اسلامی ممالک کے اتحاد، ہمدلی اور باہمی تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ عظیم الشان امام خمینی کی ناقابل فراموش نصیحت بھی ہے۔
امریکا اور نیٹو، خبیث ڈکٹیٹر قذافی کے بہانے کئی ماہ تک لیبیا اور اس کے عوام پر آگ برساتے رہے جبکہ قذافی وہ شخص تھا جو عوام کے جراتمندانہ قیام سے پہلے تک ان (مغربی طاقتوں) کے قریبی ترین دوستوں میں شمار ہوتا تھا، وہ اسے گلے لگائے ہوئے تھیں، اس کی مدد سے لیبیا کی دولت لوٹ رہی تھیں اور اسے بے وقوف بنانے کے لئے اس کے ہاتھ گرم جوشی سے دباتی تھیں یا اس کا بوسہ لیتی تھیں۔ عوام کے انقلاب کے بعد اسی کو بہانہ بنا کر لیبیا کے پورے بنیادی ڈھانچے کو ویران کرکے رکھ دیا۔ کون سی حکومت ہے جس نے نیٹو کو عوام کے قتل عام اور لیبیا کی تباہی جیسے المیے سے روکا ہو؟ جب تک وحشی اور خون خوار مغربی طاقتوں کے پنجے مروڑ نہیں دیئے جاتے اس وقت تک اس طرح کے اندیشے قائم رہیں گے۔ ان خطرات سے نجات، عالم اسلام کا طاقتور بلاک تشکیل دیئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مغرب، امریکا اور صیہونیت ہمیشہ کی نسبت آج زیادہ کمزور ہیں۔ اقتصادی مشکلات، افغانستان و عراق میں پے در پے ناکامیاں، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں عوام کے گہرے اعتراضات جو روز بروز وسیع تر ہو رہے ہیں، فلسطین و لبنان کے عوام کی جانفشانی و مجاہدت، یمن، بحرین اور بعض دوسرے امریکا کے زیر اثر ممالک کے عوام کا جراتمندانہ قیام، یہ سب کچھ امت مسلمہ اور بالخصوص جدید انقلابی ممالک کے لئے بشارتیں ہیں۔ پورے عالم اسلام اور خصوصا مصر، تیونس اور لیبیا کے باایمان خواتین و حضرات نے بین الاقوامی اسلامی طاقت کو وجود میں لانے کے لئے اس موقعہ کا بنحو احسن استعمال کیا۔ تحریکوں کے قائدین اور اہم شخصیات کو چاہئے کہ خداوند عظیم پر توکل اور اس کے وعدہ نصرت و مدد پر اعتماد کریں اور امت مسلمہ کی تاریخ کے اس نئے باب کو اپنے جاودانہ افتخارات سے مزین کریں جو رضائے پروردگار کا باعث اور نصرت الہی کی تمہید ہے۔
والسلام علی عباد اللہ الصالحین, سید علی حسینی خامنہ ای, 5 آبان 1390
29 ذیقعدہ 1432

ایران اور حزب اللہ لبنان کی جانب سے 12 سی آئی اے ایجنٹس کی گرفتاری پر مبنی خبر نے عالمی میڈیا پر ہلچل مچا دی ہے۔فارس نیوز ایجنسی کے مطابق امریکی نیوز چینل اے بی سی نیوز نے کل شام اعلان کیا کہ ایران اور لبنان میں 12 امریکی جاسوس انٹیلی جنس ایجنسیز کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے ہیں جنہیں سزائے موت دیئے جانے کا قوی امکان موجود ہے۔ اس خبر نے امریکہ میں شدید بے چینی پیدا کر دی ہے اور عالمی میڈیا میں ہلچل مچا کر رکھ دی ہے۔ ان امریکی جاسوسوں کی گرفتاری اس وقت انجام نہیں پائی بلکہ گذشتہ مدت میں وقتا فوقتا انجام پائی ہے۔ بعض سیاسی ماہرین کی نظر میں اس وقت مغربی میڈیا کا اس خبر کو بڑے پیمانے پر کوریج دینا اور پھیلانا کچھ مشکوک نظر آتا ہے۔
گارڈین: برطانوی روزنامہ ڈیلی گارڈین اس خبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ سی آئی اے کی جانب سے واضح غلطیاں باعث بنی ہیں کہ اسکے جاسوس پھانسی کے تختے تک جا پہنچیں۔
ڈیلی میل: برطانوی اخبار ڈیلی میل اس خبر پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے رپورٹ کی صورت میں لکھتا ہے: ہم نہیں سمجھتے ان ایجنٹس کو دوبارہ زندہ دیکھ سکیں گے۔ ایران اور لبنان میں گرفتار ہونے والے دسیوں جاسوسوں کو سزائے موت ملنے کا قوی امکان موجود ہے۔ ڈیلی میل اس رپورٹ میں لکھتا ہے کہ ایران اور حزب اللہ لبنان کی جانب سے ان جاسوسوں کی گرفتاری نے امریکہ کی جانب سے ایران اور حزب اللہ کے خلاف اقدامات کو شدید دھچکہ پہنچایا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس:ایسوسی ایٹڈ پریس نے بھی ان افراد کی گرفتاری کو ایران اور حزب اللہ لبنان کے مقابلے میں سی آئی اے کیلئے بڑی ناکامی قرار دیا اور لبنان میں امریکہ کی شکست کا اعتراف کیا۔
یو ایس اے ٹوڈے:امریکی اخبار یو ایس ٹوڈے لکھتا ہے کہ حزب اللہ کی جانب سے ان امریکی جاسوسوں کی گرفتاری کے بعد لبنان میں سی آئی اے کے آپریشنز کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
فرانس نیوز ایجنسی:فرانس نیوز ایجنسی نے بھی ان امریکی جاسوسوں کی گرفتاری پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ سی آئی اے کو پہلے ہی خبردار کیا جا چکا تھا کہ انکے جاسوس خطرے میں ہیں۔
نیوز 24:نیوز 24 چینل نے بھی اس خبر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان امریکی جاسوسوں کی گرفتاری نے لبنان میں سی آئی اے کو شدید دھچکہ پہنچایا ہے، گذشتہ چند ماہ کے دوران سی آئی اے کے اعلی اہلکاروں نے بیرونی ممالک میں اپنے جاسوسوں کی دستگیری کو روکنے کیلئے خفیہ طور پر شدید قسم کی احتیاطی تدابیر لاگو کر رکھی تھیں۔ یہ احتیاطی تدابیر حزب اللہ لبنان کی جانب سے ان جاسوسوں کی گرفتاری سے پہلے عمل میں لائی جا چکی تھیں۔
اسرائیل نیشنل نیوز:اسرائیلی میڈیا نے بھی اپنے مخصوص انداز میں اس خبر پر ردعمل ظاہر کیا۔ اسرائیل نیشنل نیوز نے 12 امریکی جاسوسوں کی گرفتاری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہیں ممکنہ سزائے دیئے جانے پر پریشانی کا اظہار کیا۔
یدیعوت آحارنوٹ: اسرائیلی اخبار یدیعوت آحارنوٹ “سی آئی اے وحشت زدہ، حزب اللہ کا انٹی جاسوسی سیل” کے عنوان سے لکھتا ہے کہ حزب اللہ نے ایران کی مدد سے وطن کے غداروں کو شناخت کر کے گرفتار کر لیا ہے۔
یہ اخبار مزید لکھتا ہے کہ حزب اللہ لبنان جدیدترین ٹیلی کمیونیکیشن آلات کے ذریعے سی آئی اے کے جاسوسوں کو پکڑنے میں کامیاب رہا ہے۔
ہارٹز:ایک اور اسرائیلی اخبار ہارٹز نے ان جاسوسوں کی گرفتاری کو سی آئی اے کیلئے شدید نقصان قرار دیا اور لکھا کہ حزب اللہ لبنان ایران کی مدد اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ان جاسوسوں کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
رشیا ٹوڈے:روسی نیوز چینل رشیا ٹوڈے نے “ایران اور لبنان میں سی آئی اے کے نیٹ ورک کی نابودی” کے عنوان سے اس خبر کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ فی الحال ان جاسوسوں کا انجام واضح نہیں ہے لیکن جو چیز یقینی ہے وہ یہ کہ امریکی جاسوسی ادارے کیلئے اسکے اثرات انتہائی منفی ہوں گے۔
رویٹرز:رویٹرز نیوز ایجنسی نے بھی اس خبر کو ایران اور حزب اللہ لبنان کے مقابلے میں سی آئی اے کی بڑی ناکامی قرار دیتے ہوئے لکھا کہ امریکی جاسوسی نیٹ ورک خود امریکہ کی جانب سے لبنان کو دیئے گئے ٹیلی کمیونیکیشن سسٹم کے ذریعے ہی فاش ہوا۔
ٹائم:امریکی مجلے ٹائم نے اس واقعے کو امریکی جاسوسی ادارے سی آئی اے کی شکست قرار دیتے ہوئے ان امریکی جاسوسوں کی گرفتاری میں ایران کے اہم کردار پر تاکید کی۔
سی این این:امریکی نیوز چینل سی این این نے بھی دوسرے نیوز چینلز کی طرح ان جاسوسوں کی گرفتاری کو سی آئی اے کی شکست قرار دیا۔
یونائٹڈ انٹرنیشنل:امریکی نیوز ویب سائت یونائٹڈ انٹرنیشنل نے اس خبر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان جاسوسوں کو سزائے ملنے کے امکان پر اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔
لاس اینجلس ٹائمز:امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان جاسوسوں کی گرفتاری کے بعد گذشتہ سال گرمیوں سے لبنان میں سی آئی اے کے تمام آپریشنز روکے جا چکے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی ہلال احمر سوسائٹی کے سربراہ ابوالحسن فقیہ نے کہا ہے کہ ایران کے مومن اور انسانیت دوست عوام نے صومالیہ کے قحط زدہ لوگوں کو چار سو ارب ریال سے زیادہ کی امداد دی ہے۔ ابوالحسن فقیہ نے کل نامہ نگارو ں سے گفتگو کرتے ہوۓ کہا کہ یہ امداد ایران کے مختلف علاقوں سے اکٹھی کر کے صومالیہ روانہ کی گئي ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی ہلال احمر سوسائٹی کے سربراہ نے اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ ملت ایران نے رہبر انقلاب اسلامی کے حکم پر لبیک کہتے ہوۓ ثابت کر دکھایا ہےکہ وہ اسلامی اقدار پر عمل درآمد اور دوسروں کی امداد کرنے کے سلسلے میں ہمیشہ پیشرو ہیں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی ہلال احمر سوسائٹی دینی ، انسانی اور اخلاقی فرض کی بنیاد پر پوری سنجیدگی کے ساتھ تمام ضرورت مندوں کی مدد کے لۓ آمادہ ہے ۔ ابوالحسن فقیہ نے مزید کہا کہ ترکی کے زلزلہ متاثرین کے لۓ امداد روانہ کرنا بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی ہلال احمر سوسائٹی کے ایجنڈے میں شامل ہے۔

لیبیا کی عبوری حکومت کے مطابق معمر قذافی، ان کے بیٹے معتصم اور سابق وزیر دفاع کی تدفین منگل کے روز صحرا میں نا معلوم مقام پر کر دی گئی ہے۔ سرکاری طور پر جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے، ’’ کھلے صحرا میں ایک نامعلوم مقام پر اس (قذافی) کی تدفین آج انتہائی سادہ طریقے سے کی گی اور اس میں صرف شیوخ نے شرکت کی۔ تمام اسلامی رسومات کا خیال رکھتے ہوئے ان تینوں کو سپرد خاک کیا گیا۔ قومی عبوری کونسل کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ قذافی کی لاش کی حالت ’انتہائی خراب‘ ہو چکی تھی اور اسے مزید نہیں رکھا جا سکتا۔  مصراتہ شہر کے ایک کمرشل سرد خانے کے محافظ نے بتایا ہے کہ قذافی اور ان کے بیٹے متعصم قذافی کی لاشیں سرد خانے سے نکال کر عبوری کونسل کے حوالے کر دی گئی تیھں۔ قذافی کی لاش گزشتہ چار روز سے مصراتہ کے ایک سرد خانے میں سر عام نمائش کے لیے رکھی گئی تھی۔ قومی عبوری کونسل کے ایک سینئر عہدیدار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ لیبیا کے سابق حکمران معمر قذافی کی تدفین کے وقت  موجود  گواہان سے قرآن پر حلف لیا جائے گا کہ وہ اس جگہ کے بارے میں کسی کو بھی نہیں بتائیں گے۔ قبل ازیں عبوری کونسل نے قذافی کی ہلاکت کی تحقیقات کروانے کا اعلان کیا تھا۔  دریں اثناء انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے قذافی کے حامیوں کے مبینہ قتل عام کی اطلاع دی ہے۔ اس تنظیم کے مطابق قذافی کے مضبوط گڑھ سرت میں میں 53 افراد کی لاشیں ملی ہیں، جنہیں بظاہر پھانسی دی گئی ہے۔ تنظیم کے مطابق، ’’یہ لاشیں مہاری ہوٹل سے ملی ہیں اور بعض ہلاک شدگان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔‘‘ انسانی حقوق کی اس تنظیم کے ایک نمائندے Peter Bouckaert کا کہنا تھا، ’’لاشیں ملنے سے پہلے یہ ہوٹل انقلابی دستوں کے زیر قبضہ تھا۔‘‘  دوسری جانب قومی عبوری کونسل کے ایک سینیئر عہدیدار کے مطابق معمر قذافی کے مفرور بیٹے سیف الاسلام نائیجر اور الجزائر کی سرحد کے قریب ہیں اور جعلی پاسپورٹ کا استعمال کرتے ہوئے ملک سے فرار ہونا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق اس بات کا علم ایک سیٹلائٹ ٹیلی فون کال سنتے ہوئے لگایا گیا ہے۔  عہدیدار کے مطابق یہ منصوبہ قذافی کے سابق انٹیلی جنس سربراہ عبداللہ السنوسی نے تیار کیا ہے۔ دریں اثناء سرت میں ایندھن سٹوریج یونٹ میں دھماکہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں کم از کم 50 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ دھماکے کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی ہے۔

فرانسیسی صدر اور برطانوی وزیر اعظم لیبیا کی نئی حکومت کو مبارکباد دینے کے لیے طرابلس اور بن غازی کا دورہ کر رہے ہیں۔ تاہم قذافی کی فورسز کی مزاحمت سے معلوم ہوتا ہے کہ لیبیا میں قیام امن مستقبل قریب میں بظاہر ممکن نہیں۔ لیبیا میں قذافی کے 42 سالہ دور اقتدار کو ختم کرنے میں فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی اور برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کا کردار کلیدی رہا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے اپنے اپنے ممالک میں نیٹوکے اس آپریشن کی کامیابی کے بارے میں شکوک کے باوجود قذافی کی افواج کے خلاف حملوں کی تائید جاری رکھی۔ قذافی کے اقتدار سے الگ  ہونے کے بعد یہ دونوں رہنما لیبیا کےعوام میں بہت زیادہ مقبول ہو چکے ہیں۔ ان کے دورہء لیبیا سے قبل ہی طرابلس اور بن غازی کے عوام نے دیواروں پر استقبالیہ کلمات تحریر کرنا شروع کر دیے تھے۔ دونوں رہنما آج جمعرات کو طرابلس پہنچ رہے ہیں۔ ان دونوں رہنماؤں کے اس دورے سے قبل قومی عبوری کونسل نے خبردار کیا ہےکہ قذافی کے حامی سپاہیوں کی طرف سے ہتھیار نہ ڈالنے کے فیصلے کے باعث یہ لڑائی طول پکڑ سکتی ہے اس کے ساتھ ہی لیبیا کے مرکزی بینک نے کہا ہے کہ بین الاقوامی برادری طرابلس حکومت کے منجمد اثاثوں کی بحالی کے سلسلے میں سست روی کا شکار ہے۔ لیبیا کے مرکزی بینک کے ترجمان عبداللہ سعودی نے بدھ کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں عرب وزرائے خزانہ کی ایک میٹنگ سے قبل خبر ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’ہم پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ عالمی برداری 170بلین امریکی ڈالر کے اثاثے بحال کر دے ، جو لیبیا کے مرکزی بینک کے ہیں‘۔ اقوام متحدہ کے سفارتکاروں نے بتایا ہے کہ برطانیہ نے سلامتی کونسل کو ایک قرارداد جمع کرا دی ہے، جس کی منظوری کے بعد لیبیا پر عائد پابندیاں ختم کر دی جائیں گی تاکہ یہ رقوم لیبیا تک باآسانی پہنچ سکیں۔ بتایا گیا ہے کہ سلامتی کونسل نے لیبیا کے 16بلین ڈالر کے اثاثے پہلے ہی بحال کر دیے ہیں۔ دریں اثناء قومی عبوری کونسل کے سربراہ مصطفیٰ عبدالجلیل نے مغربی ممالک سے مطالبہ کیا ہےکہ قذافی کی افواج کو پسپا کرنے کے لیے انہیں جدید ہتھیار مہیا کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ قذافی اس وقت جنوبی لیبیا میں روپوش ہیں اور ان کے سپاہی جوابی حملوں کی تیاریوں میں ہیں مصطفیٰ عبدالجلیل کے مطابق قذافی کےحامی بنی ولید، سرت، جعفرہ اور سابا نامی شہروں میں طاقت جمع کر رہے ہیں اور ان کے پاس ایسے ہتھیار نہیں ہیں کہ وہ ان علاقوں پر قذافی کا قبضہ ختم کروا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ قذافی اپنے ساتھ تمام تر سونا لے گئے ہیں اور وہ شہروں، پاور پلانٹس اور تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ مصطفٰی عبدالجلیل فرانسیسی صدر اور برطانوی وزیر اعظم کے دورہء لیبیا کے دوران ہتھیاروں کے حصول اور منجمد اثاثوں کی بحالی کے موضوع پر بھی بات کریں گے۔ دریں اثناء  لیبیا کے سابق رہنما معمر قذافی نے اقوام متحدہ کو ارسال کیے گئے ایک خط میں اپیل کی ہے کہ وہ  ان کے آبائی شہر سرت میں جنگی جرائم کو رکوانے کے لیے اقدامات کرے۔ قذافی نے کہا ہے کہ وہ لیبیا میں ہی رہیں گے اور اپنی آخری سانسوں تک مزاحمت جاری رکھیں گے۔برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور فرانس کے صدر نکولا سارکوزی لیبیا کے دارالحکومت طرابلس پہنچ گئے ہیں۔ معمر القذافی کی حکومت ختم ہونے کے بعد قومی عبوری کونسل کی قیادت سے ملاقات کے لیے جانے والے یہ پہلے غیر ملکی رہنما ہیں۔ قومی عبوری کونسل کے ایک ترجمان کے مطابق یہ دونوں رہنما باغیوں کے گڑھ بن غازی کا بھی دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم نے آج طرابلس میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک قذافی مفرور ہیں، لیبیا کی شہری آبادی کے تحفظ کے لیے اِس ملک میں نیٹو کی کارروائی ابھی جاری رہے گی۔ ڈیوڈ کیمرون نے جمعرات کے روز کی پریس کانفرنس میں لیبیا کے عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ یہ آپ کا انقلاب تھا، ان کا نہیں۔ یہ مصراتہ، بن غازی، بریقہ، زلنتان اور طرابلس کے بہادر عوام تھے، جنہوں نے قذافی کی ہولناک آمریت کو سر سے اُتار پھینکا اور وہ اُنہیں خراج تحسین پیش کرتا ہیں۔اِس پریس کانفرنس میں قومی عبوری کونسل کے سربراہ مصطفیٰ عبد الجلیل کے ساتھ ساتھ فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی بھی شریک تھے۔ فرانسیسی ریزرو پولیس کے 160 اہلکار گزشتہ شام ہی پیرس سے طرابلس پہنچ گئے تھے۔ اِن اہلکاروں کو نہ صرف اپنی شناختی دستاویزات فرانس ہی میں چھوڑنا پڑیں بلکہ جیسا کہ اُن میں سے چند ایک نے بتا دیا کہ اُنہیں کوئی کیمرہ یا موبائل فون بھی ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ تاہم یہ لوگ بلٹ پروف جیکٹیں پہنے ہوئے تھے اور اِن   کے طرابلس پہنچنے کا مقصد وہاں اپنے صدر نکولا سارکوزی کو ہر طرح سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔ ایلی زے پیلس سے بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں سے اِس دورے کی تیاریاں عمل میں لائی جا رہی تھیں۔یہ بات یقینی تصور کی جا رہی تھی کہ سارکوزی معمر القذافی کی معزولی کے بعد پہلی فرصت میں طرابلس پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ وہ خود کو قذافی کے خلاف نیٹو کی جنگ کا اصل محرک سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فرانس کے بغیر لیبیا اپوزیشن کی ایک خونی قبر کی شکل اختیار کر سکتا تھا۔ سارکوزی نے کہا کہ  ان کی کارروائیوں کی بدولت دَسیوں ہزار لوگوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا ہے، اور  یہ چند دنوں کی نہیں بلکہ چند گھنٹوں کی بات تھی اور اِس کی کوئی تردید نہیں کر سکتا۔اپنے آج کے تاریخی دورے کے موقع پر نیوز کانفرنس سے خطاب میں کیمرون اور سارکوزی نے ایک بار پھر یقین دلایا کہ لیبیا کے اربوں ڈالر کے مزید منجمد اثاثے بحال کر دیے جائیں گے۔ اس دورے کا مقصد قومی عبوری کونسل کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے اُس کی پوزیشن کو مستحکم بنانا ہے۔

سابق امریکی وزیر خزانہ لارنس سمرز نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ ٹوٹ رہا ہے اور اگر حکومت نے بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کے بہتری کیلئے موثر اقدامات نہ کئے تو یہ زوال جاری رہے گا۔  فارس نیوز ایجنسی کے مطابق امریکہ کے سابق وزیر خزانہ لارنس سمرز نے امریکی اخبار نیوزویک کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ میں شدید معاشی بحران کے باعث ملک ٹوٹ رہا ہے اور اس بحران کے خاتمے کیلئے طویل المیعاد منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ جناب لارنس سمرز جو سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے دور میں امریکی وزیر خزانہ تھے نے کہا کہ امریکہ میں اس وقت کروڑوں افراد بے روزگاری کا شکار ہیں۔ انہوں نے صدر براک اوباما کی جانب سے اقتصادی بحران پر قابو پانے کیلئے شارٹ ٹرم منصوبہ بندی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو 1 سالہ منصوبہ بندی کی بجائے 10 سالہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ سابق امریکی وزیر خزانہ نے صدر اوباما کی جانب سے تازہ ترین تقریر میں ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ کرنے کے عزم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اوباما نے ایسی باتیں بیان کی ہیں جو سب جانتے ہیں اور سب پر واضح ہیں اور وہ یہ کہ جب تک محصولات کی طلب میں اضافہ نہیں ہو گا کمپنیز نئے افراد بھرتی نہیں کریں گی۔ جناب لارنس سمرز نے کہا کہ محصولات کی طلب میں اضافے کیلئے ضروری ہے کہ ملک کے ٹوٹتے ہوئے انفرا اسٹکچر کی تعمیر نو کی جائے۔ انہوں نے تاکید کی کہ ایسی صورتحال میں جب حکومت 2 فیصد سے کم سود پر 10 سال تک قرض لے سکتی ہے اور ملک میں بے روزگاری کی شرح بھی 10 سے اوپر ہے انفرا اسٹرکچر کیلئے سرمایہ کاری ممکن نہیں اور یہ سوچنا بھی مشکل ہے کہ اس سرمایہ کاری کا وقت کب آئے گا۔ امریکہ کے سابق وزیر خزانہ نے خبردار کیا کہ اگر حکومت ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے موثر اقدامات انجام نہیں دیتی تو امریکہ کی معاشی صورتحال نہ فقط سال جاری بلکہ آئندہ سالوں میں بھی بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔

نائجر کے وزیر اعظم نے تصدیق کر دی ہے کہ لیبیا کے سابق رہنما معمر القذافی کے ایک بیٹے سعدی القذافی سمیت کئی دنو‌ں سے روپوش قذافی کے 31 قریبی ساتھی دو ستمبرسے نائجر میں موجود ہیں۔ پیرکو نائجر کے وزیر اعظم رافینی نے کہا، ’قذافی کے 32 قریبی ساتھی نائجر میں موجود ہیں اور ان میں معمر قذافی کے بیٹے سعدی کے علاوہ قذافی کی افواج کے تین جنرل بھی شامل ہیں‘۔ دارالحکومت نیامی میں غیر ملکی سفارتکاروں سے ملاقات میں رافینی نے مزید کہا کہ گزشتہ دس دنوں کے دوران یہ لوگ چار مختلف قافلوں کی صورت میں نائجر پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ قذافی کے ان ساتھیوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ملک میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی۔ وزیر اعظم رافینی نے یہ بھی کہا کہ نائجر پہنچنے والے ان تمام افراد میں سے کوئی بھی عالمی فوجداری عدالت کو مطلوب نہیں ہے، ’جہاں تک ہماری معلومات ہیں، تمام 32 افراد میں سے کوئی بھی جنگی جرائم کا مرتکب نہیں ہوا اور نہ ہی ان میں سے کوئی دی ہیگ کی جنگی جرائم کی خصوصی عدالت کو مطلوب ہے‘۔ نیامی حکام کے بقول جو اعلیٰ فوجی اہلکار نائجر پہنچے ہیں، ان میں لیبیا کی ایئر فورس کے سابق سربراہ الرفیع علی الشریف کے علاوہ معمر القذافی کے خصوصی محافظ علی خانا بھی شامل ہیں۔ ادھر لیبیا میں بنی ولید پر مکمل کنٹرول کے لیے باغی سپاہی اپنی چڑھائی جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ اطلاعات کے مطابق انہیں قذافی کے حامی دستوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ دریں اثناء سابق لیکن اس وقت روپوش رہنما معمر قذافی نے اپنے ایک نئے آڈیو پیغام میں کہا ہے کہ وہ اور ان کے سپاہی اپنی جیت تک لڑائی جاری رکھیں گے۔ایک اور پیشرفت میں قومی عبوری کونسل کے سربراہ مصطفیٰ عبدالجلیل نے قذافی کے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد طرابلس میں اپنے پہلے عوامی خطاب میں کہا کہ وہ لیبیا میں معتدل اسلام کے نظریات کی طرز پر مضبوط اور پائیدار جمہوریت کا راستہ ہموار کریں گے۔ دوسری طرف ایمنسٹی انٹرنیشنل نے لیبیا کی قومی عبوری کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی پامالیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے مناسب اقدامات کرے۔ ایمنسٹی نے اپنی تازہ رپورٹ شائع کرتے ہوئے کہا ہے کہ لیبیا میں خانہ جنگی کے دوران جہاں قذافی کی افواج نے انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا وہیں پر قذافی مخالف جنگجو بھی تشدد اور قتل جیسی کارروائیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

معمر قذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد طرابلس سے ملنے والی سکیورٹی دستاویزات سے پتہ چلا ہے کہ سی آئی اے اور دیگر مغربی خفیہ ایجنسیوں کے لیبیا کے ساتھ قریبی رابطے تھے۔ ان دستاویزات کے مطابق امریکی انٹیلیجنس ایجنسی سی آئی اے اور دیگر مغربی خفیہ اداروں کے قذافی حکومت سے رابطوں کا مقصد مشتبہ دہشت گردوں کی منتقلی کے لیے تعاون اور طریقہ کار کا تعین تھا۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ان انکشافات سے اس حوالے سے نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں کہ کس طرح مغرب نے قذافی کو دشمن سے دوست میں تبدیل کیا۔ اس کے ساتھ ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں آمریت پسند حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے حوالے سے امریکہ کے لیے ایک شرمناک مثال بھی سامنے آئی ہے۔ ایسی ہزاروں دستاویزات طرابلس میں خارجہ سکیورٹی کی ایک عمارت سے برآمد ہوئی ہیں۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ سی آئی اے کے ایجنٹوں نے طرابلس میں مستقل دفتر کے قیام کی تجویز پیش کر رکھی تھی جبکہ لیبیا کی سابق حکومت اور ان کے درمیان تعلقات تیزی سے بہتر ہو رہے تھے۔ وہ لیبیا میں اپنے ہم منصبوں سے بے تکلفی سے مخاطب ہوتے تھے اور انہیں مشورے بھی دیتے تھے۔ ایک موقع پر تو برطانیہ کے ایک خفیہ ایجنٹ نے کرسمس کے موقع پر تہنیتی پیغام بھی بھیجا۔ خیال رہے کہ ان ایجنسیوں کے درمیان کسی حد تک تعاون تو کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، لیکن نئی تفصیلات نے کہیں وسیع تر تعاون پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ مغربی ایجنسیاں بعض مشتبہ دہشت گردوں سے تفتیش کے لیے سوالات کی فہرست بھی دیا کرتی تھیں۔ یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ قذافی کی تقریر کے لیے متن بھی فراہم کرتی تھیں۔ ان دستاویزات تک پہنچنے میں انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے مدد کی ہے، جس کے Peter Bouckaert نے قذافی حکومت اور واشنگٹن کے درمیان تعاون کو امریکہ کی انٹیلیجنس تاریخ کا ایک تاریک باب قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے: ’’امریکی انٹیلیجنس سروسز پر یہ ایک داغ ہے کہ انہوں نے لوگوں کے ساتھ بدترین سلوک کرنے والے ایسے خفیہ اداروں کے ساتھ رابطے رکھے۔‘‘ ان دستاویزات میں تقریباﹰ نصف درجن لوگوں کے نام بھی درج ہیں، جو ان ایجنسیوں کے مابین تعاون کے نتیجے میں ہونے والی کارروائیوں کا نشانہ بنے۔ ان میں طرابلس کے نئے عسکری کمانڈر عبدالحکیم بلحاج بھی شامل ہیں۔

امریکی محققین کا خیال ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر سے قبل شادی کرنے والی لڑکیوں کو آئندہ برسوں کے دوران متعدد نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نفسیاتی معالجین کی تازہ ریسرچ میں بتایا گیا ہے کہ وہ لڑکیاں جن کی شادیاں اٹھارہ سال کی عمر سے قبل ہو جاتی ہیں، وہ وقت گزرنے کے ساتھ کئی جسمانی عارضوں کے علاوہ نفسیاتی مسائل کا سامنا کرتی ہیں۔ اٹھارہ سال کی عمر میں جن لڑکیوں کی شادیاں ہوتی ہیں وہ ذہنی طور پر خاصی صحت مند رہتی ہیں اور ان کو نفسیاتی پیچیدگیوں کا سامنا کم کرنا پڑتا ہے۔ اس خصوصی ریسرچ میں فوکس ایشیا اور افریقہ کے وہ ممالک تھے جہاں بچپن کی شادیاں رواج میں ہیں۔ کم عمری کی شادیوں سے متعلق نئی ریسرچ بچوں کے بین الاقوامی طبی جریدے پیڈیارٹکس میں شائع کی گئی ہے۔ اس ریسرچ کے لیے حکومتی سطح پر کی جانے والی اعلیٰ ریسرچ کو معیار بنایا گیا تھا۔ یہ ریسرچ سن 2001 اور 2002 میں مکمل کی گئی تھی۔ اس ریسرچ میں امریکہ اور فرانس کےنفسیاتی محققین خصوصیت سے پیش پیش تھے۔
نفسیاتی معالجین کا خیال ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر میں یا اس کے بعد جن لڑکیوں کی شادیاں ہوتی ہیں وہ ذہنی اعتبار سے کئی سماجی و معاشرتی مسائل کے علاوہ طبی معاملات کی سوج بوجھ بھی رکھتی ہیں اور یہ فہم و فراست ان کی خانگی زندگی میں پریشانیوں سے بچنے میں مدگار ہوتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں کم عمری میں شادی کرنے والی لڑکیاں ڈپریشن کے علاوہ کئی اندرونی پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔
یہ امر دلچسپ ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر میں کی جانے والی شادی اور اس سے کم عمر میں شادی دلہنوں کے نفسیاتی و جسمانی عوارض سے متعلق یہ پہلی اہم ریسرچ ہے جس کے نتائج کو خاصی اسٹڈی کے بعد عام کیا گیا ہے۔ اس ریسرچ میں امریکہ میں نوعمری میں ماں بننے والی لڑکیوں کی سوچ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ امریکہ کی سیاہ فام آبادیوں کے خاص طبقوں میں نوعمری میں لڑکیوں کی شادیاں کرنے کا رواج موجود ہے۔ ریسرچرز نے اس تحقیق کے لیے ہزاروں خواتین کے براہ راست انٹرویو بھی کیے۔ اس کے علاوہ سوالناموں کو بھی مکمل کیا گیا۔ ریسرچ کے مطابق کم عمری میں شادیاں کرنے والی لڑکیاں بعض اوقات ایسی نفسیاتی صورت حال کا سامنا کرتی ہیں کہ وہ اپنے خاندانوں اور معاشروں میں مس فٹ ہو کر رہ جاتی ہیں۔ ریسرچرز نے یہ بھی ضرور واضح کیا ہے کہ نوعمری میں شادی کرنے والی ہر لڑکی ضروری نہیں کہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو لیکن زیادہ تر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی شادیوں سے نفسیاتی عوارض جنم لیتے ہیں۔

تریپولی: لیبیا کے باغیوں نے معمر قذافی کو زندہ یا مردہ پکڑکر حوالے کرنے والے کے لیے عام معافی اور 17 لاکھ ڈالر انعام کا اعلان کیا ہے جبکہ ایک تاجر نے بھی 20 لاکھ انعام دینے کا اعلان کیا ہے باغیوں نے کہا ہے کہ معمر قذافی آبائی قبصے سیرت میں موجود ہو سکتے ہیںنیٹو نے ایک بار پھر زور دے کر کہا ہے کہ لییا پر بمباری جاری رہے گی باغیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ 95 فیصد لییا ان کے کنٹرول میں ہے معمر قذافی کا آبائی قصبہ سیرت ابھی باغیوں کی دسترس سے دور ہے باغیوں نے کہا ہے کہ معمر قذافی سیرت میں ہو سکتے ہیں تاہم وہاں کارروائی سے خون خرابے سے گریز کریں گے۔باغیوں نے اعلان کیا ہے کہ قذافی کا جو ساتھی انہیں زندہ یا مردہ پکڑ کر قومی عبوری کونسل کے حوالے کرے گا اسے عام معافی کے علاوہ 17 لاکھ امریکی ڈالر بھی دیئے جائیں گے۔کونسل کے چیئرمین مصطفےٰ عبد الجلیل نے کہا ہے کہ بن غازی کے ایک تاجر نے بھی قذافی کی گرفتاری پر 20 لاکھ لیبیائی دینار کا انعام رکھا ہے قومی عبوری کونسل کے رہنماء قطر میں مغربی سفیروں سے جلد ملاقات کریں گے جس میں مستقبل کے لیبیا کے خدوخال پر بات چیت ہو گی

حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں، ہم صیہونی حکومت کے وجود کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے، ہمارا ماننا ہے کہ یہ حکومت ایک جعلی حکومت ہے، جبری مسلط کردہ حکومت ہے، مشرق وسطٰی کی جغرافیائی حدود کے اندر ایک بدنما دھبہ ہے اور یہ دھبہ بلا شبہ مٹ جانے والا ہے۔ اس کی نابودی میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ بہرحال ہم اس کی ماہیت اور اس کے وجود کے مخالف ہیں۔ آپ فرماتے ہیں فلسطین کے سلسلے میں تمام حکومتوں کی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ خواہ وہ مسلمان حکومتیں ہوں یا غیر مسلم حکومتیں۔ جو حکومت بھی انسانیت کی پاسبانی کی دعویدار ہے اس پر ذمہ داری ہے۔ تاہم مسلمانوں کی ذمہ داریاں ‎زیادہ سنگین ہیں۔ اسلامی حکومتوں کا فریضہ ہے اور انہیں اپنا یہ فریضہ پورا کرنا چاہئے۔ جو حکومت بھی فلسطین کے سلسلے میں اپنے فریضے پر عمل نہیں کرے گی نقصان اٹھائے گی کیونکہ قومیں بیدار ہو چکی ہیں اور حکومتوں کے سامنے اپنے مطالبات پیش کر رہی ہیں۔ حکومتیں اس سلسلے میں مطالبات کو تسلیم کرنے اور کام کرنے پر مجبور ہیں۔
رھبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کہتے ہیں بہت سی عرب حکومتوں نے غزہ کے مسئلے میں اور اس سے قبل دیگر مسائل میں انتہائی خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ جب بھی مسئلہ فلسطین کی بات ہوئی انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ یہ عربوں کا مسئلہ ہے! لیکن جب عمل کرنے کا موقع آیا تو مسئلہ فلسطین ان کے ایجنڈے سے یکسر غائب ہی ہو گیا۔ انہوں نے فلسطین اور فلسطینیوں کی مدد کرنے کے بجائے، اپنے عرب بھائیوں کا ہاتھ تھامنے کے بجائے کنارہ کشی کر لی۔ اگر اسلام پر ان کا عقیدہ نہیں ہے تو عرب قومیت کا ہی کچھ پاس و لحاظ کرتیں! انہوں نے بڑی خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ تاریخ میں ان کا یہ عمل یاد رکھا جائے گا۔ سزا و جزا صرف آخرت سے مختص نہیں ہے۔ اسی دنیا میں بھی سزا و جزا ملتی ہے۔ اسی طرح نصرت الہی بھی صرف آخرت سے مختص نہیں ہے۔ حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں ہم بتیس سال سے فلسطینی عوام کی حمایت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان بتیس برسوں میں کس قوم اور کس حکومت نے اس انداز سے فلسطینی عوام کی مدد و حمایت کی ہے؟ کیا فلسطینی عوام شیعہ ہیں؟ غزہ کے مسئلے میں ہمارے عوام نے کتنی محنت کی؟ ہمارے نوجوان ایئر پورٹ تک پہنچ گئے کہ غزہ جائیں! نکل پڑے تھے کہ غزہ جائیں اور اسرائیل کے خلاف جنگ کریں! انہیں لگ رہا تھا کہ راستہ کھلا ہوا ہے۔ لیکن راستہ بند تھا۔ جانا ممکن نہیں تھا۔ ہم نے انہیں روکا اور کہا کہ نہ جائیے! کہ کہیں بیچ راستے میں انہیں سرگرداں نہ ہونا پڑے کیونکہ ان کے لئے راستہ بند تھا۔ ہمارے عوام نے غزہ کے سلسلے میں، فلسطین کے سلسلے میں، مصر کے حوالے سے، تیونس کی نسبت اور ہر مسئلے میں اپنے جذبات کا برملا اظہار کیا۔ ان ممالک کے لوگ شیعہ تو نہیں ہیں۔ لہذا یہ مسئلہ شیعہ سنی کا مسئلہ نہیں ہے۔ ہم غزہ، فلسطین، تیونس، لیبیا، مصر، بحرین اور یمن کے مسئائل میں کسی امتیاز اور تفریق کے قائل نہیں ہیں۔ جہاں بھی قوموں پر ظلم و زیادتی ہو رہی ہے اس کی مذمت کی جانی چاہئے۔ اسلامی نعرے کے ساتھ آزادی کے حصول کی سمت میں شروع ہونے والی ہر تحریک کے ہم حامی ہیں۔  رھبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای ایک اور مقام پر کہتے ہیں آج فلسطینی قوم اور غزہ میں محصور کر دیئے جانے والوں کی امداد، افغانستان، پاکستان، عراق، اور کشمیر کے عوام کے ساتھ اظہار ہمدردی اور یکجہتی، امریکہ اور صیہونی حکومت کی زیادتیوں کے خلاف مجاہدت اور استقامت، مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یگانگت کی پاسبانی اور اس اتحاد کو چوٹ پہنچانے والی بکی ہوئي زبانوں اور کثیف و آلودہ ہاتھوں سے پیکار اور تمام اسلامی حلقوں میں مسلمان نوجوانوں کے درمیان احساس ذمہ داری اور دینداری و بیداری کی ترویج و فروغ، بہت بڑے فرائض ہیں جو قوم کے ذمہ دار افراد کے دوش پر ہیں۔ آپ فرماتے ہیں فلسطین کا مسئلہ، عالم اسلام کا پہلا مسئلہ ہے۔ غزہ میں جرائم اب بھی جاری ہیں۔ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر جرائم جوں کے توں اب بھی جاری ہیں۔ صیہونی حکومت نہایت ہی بے شرمی اور دیدہ دلیری کے ساتھ فلسطین کے مظلوم عوام پر اپنے ظلم و ستم جاری رکھے ہوئے ہے اور وہاں واشنگٹن میں امن کے اجلاس ہو رہے ہیں۔ امن کس کے ساتھ؟ چاہتے ہیں فلسطین کے مسائل پر، ملت فلسطین کے دشمنوں کے جرائم پر پردہ ڈال دیں۔ یہ مذاکرات کہ جس کا نام انہوں نے ” امن مذاکرات” قرار دیا ہے ! ایک غاصب نے آکر ایک ملت کے گھر اور کاشانے کو غصب کر لیا ہے اور اسی پر اکتفا نہیں کی، اس ملت کا سر کچلنے کے لئے ہر قسم کے ممکنہ وسائل و امکانات کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ وہ بھی بالکل ہی بے فکری اور لاپروائی کے ساتھ۔ مغربی دنیا، امریکہ اور دوسرے لوگ بیٹھے ہوئے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔  حملہ آور ظالم و جابر سر کچلنے والے کی حوصلہ افزائی اور ترغیب بھی کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی امن کے لئے اجلاس بھی منعقد کر رہے ہیں۔ کون سی مصالحت؟ کیسا امن ؟! کس کے اور کس کے درمیان؟ اس طرف بے شرم و بے غیرت ظالم و ستمگر صیہونی بھی نہایت ہی دیدہ دلیری کے ساتھ فلسطینیوں کے مقابلے میں کھڑے کہہ رہے ہیں ٹھہرو! یہودیوں کی آبادکاری کو قبول کرلو ( زبان نہ کھولو) ان کا ایک بڑا جرم یہ ہے کہ قدس شریف کو مسلمانوں کے قبلۂ اول کو، فلسطین عزيز کو یہود علاقہ بنانے کی غرض سے اپنے ظلم و ستم اور سازشوں کا مرکز بنانا چاہتے ہیں، یہ ہمارا ایک اصلی مسئلہ ہے۔  رھبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای ایک اور مقام پر کہتے ہیں، صیہونی حکومت نے اپنی شقی القلبی کی حد کر دی ہے۔ دنیا کے گوشہ و کنار سے جس قدر بھی (فلسطینیوں کی) حمایت کی صدا بلند ہوئی، اس حکومت نے بے توجہی برتی اور بلا وقفہ جرائم انجام دیئے۔ ان حالات میں ایران کی مسلمان قوم نے ہرسال سے زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ یوم قدس برپا کیا۔ اسلامی جمہوریۂ ایران کے خلاف مغرب خصوصا” امریکہ کی موذیانہ کوششوں نے ہماری ملت کے جذبے اور زیادہ جوان کر دیئے، جبکہ عالمی استکبار اور عالمی تسلط پسندوں کے نزدیک فلسطین کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو وہ کسی بھی قیمت پر طاق نسیاں کے سپرد کر دینا چاہتے ہیں، ملت ایران نے اس مسئلے کو مرکزي مسئلہ بنا دیا۔ حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں، ہم صیہونی حکومت کے وجود کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے، ہمارا ماننا ہے کہ یہ حکومت ایک جعلی حکومت ہے، جبری مسلط کردہ حکومت ہے، مشرق وسطٰی کی جغرافیائی حدود کے اندر ایک بدنما دھبہ ہے اور یہ دھبہ بلا شبہ مٹ جانے والا ہے۔ اس کی نابودی میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ بہرحال ہم اس کی ماہیت اور اس کے وجود کے مخالف ہیں، فلسطین ایک تاریخی ملک ہے۔ طول تاریخ میں فلسطین نام کا ایک ملک رہا ہے۔ کچھ لوگ دنیا کی ستمگر طاقتوں کی حمایت سے آئے اور وحشیانہ ترین انداز میں انہوں نے عوام کو اس ملک سے نکال باہر کیا، انہیں قتل کیا، جلا وطن کیا، ان پر شکنجہ کسا، ان کی توہین کی، الغرض اس قوم کو نکال باہر کیا۔ نتیجے میں آج کئی ملین بے گھر فلسطینی مقبوضہ فلسطین کے ہمسایہ ممالک میں اور دیگر ملکوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں جن کی اکثریت پناہ گزیں کیمپوں میں رہ رہی ہے۔ اس طرح انہوں نے آ کر ایک ملک کو دنیا کے جغرافیا سے ختم کر دیا، ایک قوم کو پوری طرح نابود کر دیا اور اس کی جگہ پر ایک جعلی اور مصنوعی جغرافیائی یونٹ مسلط کر دی اور پھر اس کا نام اسرائیل رکھ دیا۔  اب بتائیے کہ عقل و منطق کا تقاضا کیا ہے؟ ہم مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں جو بات کہتے ہیں وہ محض نعرے بازی نہیں ہے۔ یہ سو فیصدی منطقی بات ہے۔ چند طاقتور ممالک جن میں پہلے سر فہرست برطانیہ تھا اور اب امریکا ہو گيا ہے ان کے حاشیہ بردار کچھ مغربی ممالک اب آ کر کہتے ہیں کہ فلسطینی ریاست اور فلسطینی قوم کو مٹا دیا جانا چاہئے، تاکہ اس کی جگہ پر اسرائیل نام کا جعلی ملک اور ملت اسرائيل کے نام سے ایک جعلی قوم کو معرض وجود میں لایا جائے، یہ تو ایک بات ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسری بات امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ نہیں، یہ جعلی اور مسلط کردہ جغرافیائي یونٹ ختم کر دی جانی چاہئے اور اس کی جگہ پر اصلی قوم، اصلی ملک اور اصلی جغرافیائی یونٹ کو بحال کیا جانا چاہئے۔ ان دونوں باتوں میں منطقی بات کون سی ہے؟ وہ بات منطقی ہے جس کے مطابق طاقت کے ذریعے اور سرکوبی کر کے ایک سیاسی نظام کو ایک تاریخی اور جغرافیائی حقیقت کو جس کا کئی ہزار سالہ ماضی ہے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے، یا پھر یہ بات منطقی ہے کہ یہ اصلی جغرافیائی حقیقت باقی رہے اور جعلی و مسلط کردہ یونٹ کو مٹا دیا جائے؟  حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں صہیونیزم، فاشزم کی نئی شکل ہے جس کی انسانی حقوق اور آزادی کی طرفداری کی دعویدار حکومتوں اور سب سے زیادہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طرف سے حمایت اور مدد کی جا رہی ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دیگر یورپی حکومتوں کو جنھوں نے ان وحشیوں کی جو اپنی فطرت میں قاتل ہيں، سیاسی، تشہیراتی، فوجی اور اقتصادی مدد کی ہے اور ہمیشہ اس کے جرائم میں اس کی پشتپناہی کی ہے، سنجيدگی کے ساتھ جواب دینا ہو گا۔  دنیا کے بیدار ضمیروں کو سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہئے کہ آج مشرق وسطٰی کے حساس علاقے میں انسانیت، کتنی خطرناک صورت حال (اور وحشی حکومت) سے دوچار ہے؟ آج غصب شدہ ملک فلسطین اور اس کے مظلوم اور غمزدہ لوگوں پر کیسی سفاک پاگل اور وحشی حکومت مسلط ہے؟ غزہ میں پندرہ لاکھ خواتین، مردوں اور بچوں کا محاصرہ اور غذائی اشیاء، دواؤں اور ضروری اشیاء کی ناکہ بندی کا کیا مطلب ہے؟ غزہ اور غرب اردن میں نوجوانوں کا روزانہ کا قتل عام، قید اور ایذا رسانیاں کس طرح قابل فہم ہو سکتی ہيں؟ فلسطین اب صرف عرب یا اسلامی مسئلہ نہيں رہا۔ بلکہ موجودہ دنیا کا اہم ترین انسانی مسئلہ بن چکا ہے۔  رھبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کہتے ہیں، عرب حکومتیں سخت آزمائش اور امتحان سے روبرو ہيں۔ بیدار عرب اقوام ان سے ٹھوس اور فیصلہ کن اقدام کا مطالبہ کر رہی ہيں۔ اسلامی کانفرنس تنظیم اور عرب لیگ کو غزہ کے محاصرے کے خاتمے، غرب اردن اور دیگر فلسطینی علاقوں میں فلسطینیوں کے گھروں پر حملے مکمل طور پر بند کئے جانے اور نتنیاہو نیز ایہود باراک جیسے مجرموں پر مقدمہ چلانے سے کم پر راضي نہيں ہونا چاہئے۔ مجاہد فلسطینی قوم، غزہ کے عوام اور عوامی حکومت کو بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ان کا خبیث دشمن آج پہلے سے کہيں زیادہ کمزور و بے بس ہو چکا ہے۔ مجرمانہ اقدام غاصب صہیونی حکومت کی طاقت کا نہیں بلکہ اس کی کمزوری اور عاجزی کا ثبوت ہے۔ سنت الہی یہ ہے کہ ستمگر اپنے شرمناک دور کے اواخر میں خود اپنے ہی ہاتھوں اپنی فنا اور زوال کو نزدیک کریں۔ گذشتہ برسوں کے دوران لبنان پر حملہ اور اس کے بعد غزہ پر حملہ انہی جنونی اور پاگل پن کے اقدامات میں سے ہے، جنھوں نے صہیونی دہشت گردوں کو ان کے حتمی زوال کی کھائي کے اور زیادہ نزدیک کر دیا ہے۔ بحیرہ روم میں بین الاقوامی امدادی قافلے پرحملہ بھی انہیں احمقانہ اقدامات میں سے ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کے دفتر نےایران کے مؤمن اور مخلص عوام سے صومالیہ کے قحط زدہ مسلمانوں کی مدد کی سفارش کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے دفتر نے ایران کے مؤمن و مخلص عوام سے سفارش کی ہے کہ وہ صومالیہ کے قحط زدہ لوگوں کی بھر پور مدد کریں۔ افریقہ بالخصوص صومالیہ میں خشکسالی اور قحط سالی کے بحران کے پیش نظر رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے دفتر نےرمضان المبارک کے رحمت و برکت کے مہینے میں ایران کے عزیز عوام کو سفارش کی ہے کہ وہ صومالیہ کے قحط زدہ مسلمانوں کی مدد کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ اطلاعیہ کا متن حسب ذیل ہے . بسم اللہ الرحمن الرحیم آجکل افریقہ کے علاقہ بالخصوص صومالیہ کے مصیبت زدہ ملک کو دردناک انسانی بحران کا سامنا ہے اور اس علاقہ میں خشکسالی، قحط اور بین الاقوامی اداروں کی عدم توجہ کی بنا پر کئی ملین مسلمانوں بالخصوص عورتوں اور بچوں کی زندگي شدید خطرے سے دوچار ہو گئی ہے۔ لہذا رہبر معظم انقلاب اسلامی کی صومالیہ کے قحط زدہ عوام کی مدد پر خصوصی توجہ کے پیش نظر ایران کی انسان دوست عوام کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اس رحمت و برکت کے مہینے میں صومالیہ کی مسلمان قوم کی مددکرنے میں بھر پور حصہ لیں اور اپنی نقدی اور غیر نقدی امداد کو  متعلقہ اداروں کے ذریعہ صومالیہ کے عوام تک پہنچانے کی کوشش کریں ۔ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

چند دن قبل پاکستان میں امریکی سفیر کیمرون منٹر کی بلوچستان یاترا اور وہاں سیاستدانوں، علیحدگی پسند رہنماؤں اور بعض قبائلی رہنماؤں سے ملاقاتوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا، ملک بھر کے محب وطن عناصر نے امریکی سفیر کی بلوچستان یاترا کو سفارتی آداب کے منافی قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ امریکی سفیر کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے اور انہیں محدود کیا جائے۔ امریکہ ایک عرصے سے بلوچستان میں قونصل خانہ قائم کرنے کا خواہشمند ہے، امریکہ نے اس قونصل خانے کے لئے عملے اور دیگر انسٹالیشن کے لئے جو اعداد و شمار حکومت پاکستان کو پیش کئے ہیں اس کو مدنظر رکھا جائے تو یہ قونصل خانہ شاید اسلام آباد میں قائم امریکی سفارتخانے سے بھی بڑا ہو گا۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ بلوچستان میں اتنے بڑے قونصل خانے کی کیا ضرورت ہے؟ گریٹر بلوچستان کے نعرے میں ایرانی بلوچستان کے لیے کوئی کشش نہیں، کیونکہ وہ یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جو مراعات و آزادی انہیں ایران میں حاصل ہے وہ گریٹر بلوچستان میں شمولیت سے نہیں مل سکتی، گریٹر بلوچستان کانعرہ بلوچ علیحدگی پسندوں نے ایرانی بلوچوں کو ساتھ ملانے اور اپنی تحریک کو تقویت دینے کیلئے استعمال کیا، تاکہ امریکی مفادات کی تکمیل میں ایران کے خلاف پراپیگنڈہ کرکے عالمی توجہ حاصل کی جاسکے۔ امریکہ اس نعرے کی آڑ میں ایران پر سیاسی دباؤ میں اضافہ کرنا چاہتا تھا، لیکن وہ اپنی ان سازشوں میں ناکام رہا۔ ماضی میں ایران کو پیشکش بھی کی گئی تھی کہ وہ بلوچ علیحدگی پسندوں کی سرپرستی کرے، لیکن ایران نے اپنے برادر ہمسایہ ملک پاکستان کے مفادات کی خاطر ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو بلوچ علیحدگی پسند رہنما امریکہ، بھارت، روس اور دیگر پاکستان دشمن ممالک سے جا ملے اور ان کی حمایت حاصل کرکے بالآخر ایسی صورتحال پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے جس کا ہم آج بلوچستان میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔ بلوچ علیحدگی پسند مسلح گروہوں نے اپنی حالیہ تحریک کے آغاز میں طالبان، لشکر جھنگوی اور القاعدہ سے قریبی تعلقات رکھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان تعلقات میں سردمہری اس وقت نمودار ہونا شروع ہوئی جب امریکہ کو افغانستان میں پے درپے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 
بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں امریکہ اپنا حصہ پہلے ہی مناسب مقدار میں ڈال رہا ہے کہ لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان حالات میں مزید بگاڑ کے لئے کام شروع کر چکا ہے، کوئٹہ میں گذشتہ دنوں کالعدم سپاہ صحابہ سے تعلق رکھنے والے ایک مولوی کا قتل اور اس کے بدلے میں ہزارہ قبائل کے خلاف لشکر جھنگوی کی کارروائیوں میں بیسیوں افراد کا قتل ایک مثال ہے۔ مولوی کے قتل میں ہزارہ قبیلہ اس لیے ملوث نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ تو چار سال سے قتل وغارت گری کا شکار ہیں، لیکن کوئی ایک واقعہ بھی ایسا بیان نہیں کیا جا سکتا جس میں ہزاروں نے ردعمل کا اظہار کیا ہو، کیونکہ وہ ایک مہذب اور پڑھا لکھا طبقہ شمار ہوتا ہے۔ لہذا اس بات کے واضح شواہد موجود ہیں کہ مولوی کے قتل میں بلوچ علیحدگی پسند ملوث ہیں۔ لیکن ہو گا کیا، طالبان اور سپاہ صحابہ کے ذمہ دار بلوچ علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں کا شکار ہونگے اور وہ بدلے میں ہزارہ یا شیعہ افراد کیخلاف کارروائی کرینگے۔ اس تجزیئے سے قطع نظر مستقبل قریب میں بلوچ علیحدگی پسند مسلح تنظیموں اور طالبان و القاعدہ میں عنقریب ایک لڑائی چھڑتی نظر آ رہی ہے۔  ہم نے پچھلے کالم میں اس بات کا جائزہ لیا تھا کہ امریکہ بلوچستان میں بیٹھ کر ایران کے خلاف ممکنہ طور پر کیا اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے دو اہداف کا ذکر کیا تھا، اب ہم تیسرے امریکی آپشن کا جائزہ لیتے ہیں، جس کو ایران کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بلوچستان میں فرقہ واریت کو پھیلانے کا خوفناک منصوبہ بھی امریکہ کے ان آپشن میں شامل ہو سکتا ہے، جسے ایران کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کیلئے فرقہ وارانہ پسِ منظر رکھنے والی تنظیموں جیسے کالعدم سپاہ صحابہ (جماعت اہلسنت والجماعت)، لشکر جھنگوی پر سرمایہ گزاری کی جا رہی ہے۔ ان دونوں جماعتوں نے ایک عرصے سے کوئٹہ اور گرد و نواح میں شیعہ کشی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، جو واضح طور پر بیرونی ایجنڈے پر عملدرآمد کا ایک حصہ ہے۔  اسی سوچ اور نظریئے کی حامل کئی ایک دیگر جماعتیں بھی بلوچستان اور بالخصوص بلوچستان اور ایران کی سرحدی پٹی میں متحرک ہیں۔ مثلاً پچھلے ماہ ایران سے متصل سرحدی پٹی کے علاقوں میں تبلیغی جماعت نے 3 بڑے اجتماعات کیے ہیں۔ جس میں ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان سے بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی ہے۔ تبلیغی جماعت ظاہری طور پر تو اسلام کی تبلیغ کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے لیکن درحقیقت دیوبندیت اور وہابیت کی ترویج و اشاعت میں مصروف عمل ہے۔ پاکستان میں موجود “دیوبندی اور وہابی مسلک” کی تمام مذہبی یا عسکری جماعتیں اپنے کارکنوں کی نظریاتی و فکری تربیت کیلئے اس جماعت کے نظام تربیت سے استفادہ کرتی ہیں۔ 
ماضی میں لشکر جھنگوی کے بڑے دہشتگرد ریاض بسرا، ملک اسحاق، اکرم لاہوری وغیرہ اسی جماعت کے سالانہ اجتماع منعقدہ رائیونڈ سے استفادہ کرتے رہے ہیں۔ اسی اجتماع میں ان کے آپریشنل ونگ کی ملاقاتیں ہوتی تھیں اور مستقبل کی پلاننگ کی جاتی تھی۔ یہ اجتماع پورے ملک میں اسلحہ کی ترسیل کا ایک بڑا ذریعہ بھی تصور کیا جاتا ہے جو بعدازاں دہشتگردی کی وارداتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق پاکستان کے علاقہ غیر سے آنے والی بسوں، ٹرینوں جنہیں راستے میں پولیس یا کوئی بھی سیکورٹی ادارہ تلاشی یا چیکنگ نہیں کرتا۔ اسلحہ سے بھر کر رائیونڈ میں لائی جاتی ہیں اور یہاں سے مختلف گروپوں میں یہ اسلحہ تقسیم کیا جاتا ہے۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک طویل عرصے تک فرقہ وارانہ قتل و غارت گری میں ملوث تنظیم لشکر جھنگوی تبلیغی مرکز اور تبلیغی جماعت کے انفراسٹرکچر سے بھرپور استفادہ کرتی رہی ہے۔ ایسا پس منظر رکھنے والی جماعت اگر ایران بلوچستان کی سرحدی پٹی میں فعالیت کرتی ہے تو لامحالہ اس بات کا پوری طرح احتمال موجود ہے کہ اس تبلیغی جماعت کی حساس علاقے میں موجودگی کسی خاص وجہ کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ ابتدائی طور پر تبلیغی جماعت بلوچستان و ایران کے صوبہ سیستان میں لوگوں میں اسلام کے نام پر فرقہ واریت کے بیج بوئے گی۔ اور بعد میں لشکر جھنگوی، جنداللہ اور بلوچستان کی علیحدگی پسند مسلح تنظیمیں اس سے استفادہ کرتے ہوئے امریکہ کے مذموم مقاصد کی تکمیل کریں گی۔ ممکن ہے تبلیغی جماعت کی اعلٰی قیادت ان سرگرمیوں سے لاعلم ہو، لیکن اس جماعت میں فرقہ پرست اور جہادی تنظیموں کا اثرونفوذ کافی گہرا دکھائی دیتا ہے جو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے اس جماعت کے ڈھانچہ کو استعمال میں لائے ہوئے ہیں۔
یہ تنظیمیں ایران کی سرحدوں کے اندر امریکی عزائم کی تکمیل کے علاوہ بلوچستان میں بھی ان اہداف کو نشانہ بنائیں گی جو ایران کا Asset شمار کیے جاتے ہیں۔ بلوچستان کے اندر شیعہ مکتب کے حامل ہزارہ قبیلے، زائرین اور دیگر شیعہ قبائل ان کا خصوصی نشانہ بنیں گے۔ چہ جائیکہ کوئٹہ و مستونگ میں تو شیعہ کشی کا سلسلہ پچھلے 4 سال سے جاری ہے۔ ممکن ہے اس قتل و غارت گری کے سلسلے کو مزید پھیلا دیا جائے اور ٹارگٹ کلنگ و دہشتگردی کے واقعات میں تیزی آ جائے۔ اس صورتحال کی سب سے خوفناک شکل یہ ہو سکتی ہے کہ ہزارہ اور دیگر شیعہ افراد پر ایک خوف کی فضا مسلط کر دی جائے، جس سے وہ فکری ضعف اور بے عملی کا شکار ہو جائیں اور یہی امریکی استعمار کا اصل ہدف بھی ہے کہ بلوچستان میں ان عناصر کو ختم یا اتنا کمزور کر دیا جائے کہ یہ مستقبل میں ان کے عزائم کی راہ میں دیوارنہ بن سکیں۔  امریکہ کا ایک ہدف تو ایران دوست قوتوں کو کمزور کرنا اور دوسرا ہدف انہیں قوتوں کو اپنے لئے کار آمد بنانا بھی ہو سکتا ہے۔ اگر بلوچستان کو سامنے رکھیں تو ایسا ہی لگتا ہے، ایک طرف تو امریکہ اپنی آلہ کار تنظیموں کے ذریعے اس طبقے کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنا کر خوفزدہ کریگا دوسری طرف ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال بھی کر سکتا ہے، امریکہ کے اس ہتھکنڈے سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔
امریکہ کا چوتھا بڑا ہدف کوئٹہ شوریٰ کے خلاف کارروائی کرنا ہے، امریکہ نے کچھ عرصہ قبل بھی پاکستانی حکومت سے کوئٹہ اور بلوچستان افغانستان کی سرحدی پٹی میں طالبان کے خفیہ ٹھکانوں پر ڈورن حملوں کی اجازت کا مطالبہ کیا تھا، جسے پاکستان نے رد کر دیا۔ اب امریکہ بلوچستان میں وزیرستان طرز کا انٹیلی جنس نظام قائم کرنا چاہتا ہے، جس سے استفادہ کرتے ہوئے وہ مستقبل میں طالبان کے خلاف کوئی بڑا آپریشن لانچ کر سکتا ہے، اب اگر امریکہ ایک بار اپنا جاسوسی سسٹم قائم کر لیتا ہے تو یہ ضروری نہیں اس سے صرف طالبان کیخلاف کام لے، ممکن ہے اس منصوبے کے مقاصد طویل المیعاد ہوں، جس سے خود پاکستان کے علاقے میں مفادات کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، دوسرا کسی ملک میں علی اعلان اپنا جاسوسی نیٹ ورک قائم کرنا جہاں سفارتی آداب کے خلاف ہے، وہاں اس ملک کی خودمختاری و سلامتی کے بھی انتہائی خلاف ہے، کوئی بھی آزاد و خودمختار قیادت و قوم کسی ملک کو اپنی دھرتی پر اس قسم کی منفی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دے سکتی۔
گوادر کی بندرگاہ ایک تجارتی و معاشی اثاثے کے علاوہ علاقے میں ایک تزویراتی اہمیت کی حامل بھی ہے، گوادر کی تعمیر و ترقی اور انتظامات میں چین کی شمولیت نے امریکی کا چین چھین لیا ہے، اگر پاکستانی حکومت گوادر کو چینی انتظام میں دے دیتی ہے تو معاشی فوائد کے حصول کے علاوہ علاقے میں چین کی اسٹریٹجک بالادستی ایک لازمی امر ہے۔ چین، ایران، روس، پاکستان اور سنٹرل ایشیاء کے بعض ممالک پر مشتمل بلاک ایک مضبوط تجارتی روابط کے علاوہ ایک دفاعی بلاک کی تشکیل میں تبدیل ہونے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں، اگر ایسا ممکن ہو جائے تو امریکہ کی اس خطے میں بالادستی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا جبکہ معاشی فوائد سے ہاتھ دھونے سے اس کی روز بروز گرتی ہوئی معیشت کو بھی ایک مزید دھچکا لگ سکتا ہے، انہیں وجوہات کی بنا پر امریکہ گوادر پر چین کے اثر و رسوخ میں کمی اور اپنی استعداد میں اضافہ چاہتا ہے تاکہ جہاں وہ اپنی دم توڑتی معیشت کیلئے زیادہ استفادہ حاصل کرے، وہاں دفاعی و تزویراتی بالادستی کی مہار بھی اپنے ہاتھ سے نہ جانے دے۔  چند دن قبل پاکستان میں امریکی سفیر کیمرون منٹر کی بلوچستان یاترا اور وہاں سیاستدانوں، علیحدگی پسند رہنماؤں اور بعض قبائلی رہنماؤں سے ملاقاتوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا، ملک بھر کے محب وطن عناصر نے امریکی سفیر کی بلوچستان یاترا کو سفارتی آداب کے منافی قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ امریکی سفیر کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے اور انہیں محدود کیا جائے۔ امریکہ ایک عرصے سے بلوچستان میں قونصل خانہ قائم کرنے کا خواہشمند ہے، امریکہ نے اس قونصل خانے کے لئے عملے اور دیگر انسٹالیشن کے لئے جو اعداد و شمار حکومت پاکستان کو پیش کئے ہیں اس کو مدنظر رکھا جائے تو یہ قونصل خانہ شاید اسلام آباد میں قائم امریکی سفارتخانے سے بھی بڑا ہو گا۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ بلوچستان میں اتنے بڑے قونصل خانے کی کیا ضرورت ہے؟  چہ جائیکہ دفتر خارجہ نے بھی بلوچستان میں امریکی قونصل خانے کے قیام کی مخالفت کر دی ہے لیکن دیکھیں ہماری حکومت اس نئی امریکی ڈیمانڈ کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے، لیکن ایک بات طے ہے کہ بلوچستان میں قونصل خانہ قائم کرنے کا امریکی مطالبہ ملک و قوم اور اس کے دوست ہمسایہ ممالک کے حق میں قطعاً نہیں ہو سکتا۔ لہذا اس حوالے سے جو بھی فیصلہ کیا جائے، پوری طرح سوچ سمجھ کر اور ملکی مفادات کو سامنے رکھ کر کیا جانا چاہیئے۔ امریکی سفیر کا بلوچستان کا وزٹ اپنے اندر کئی ایک سوالات کو جنم دے رہا ہے جن کا بروقت جواب ضروری ہے۔تحریر:زاہد مرتضیٰ

قاہرہ (آئی این پی) مصری سکیورٹی عہدیدار نے کہا ہے کہ آرمی چیف فیلڈ مارشل محمد حسین طنطاوی حسنی مبارک کیس میں گواہی دینے کیلئے تیار ہوگئے ہیں۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک سکیورٹی عہدیدار نے اس بات کی تصدیق کی کہ اگر فیلڈ مارشل محمد حسین طنطاوی کو عدالت نے طلب کیا تو مقدمے میں گواہی دینے کو تیار ہیں۔ گزشتہ روز سابق صدر حسنی مبارک، ان کے صاحبزادوں، سابق وزیر داخلہ حبیب العدلی سمیت دیگر افراد کے خلاف مقدمات کی سماعت کے موقع پر حسنی مبارک کے وکیل فرید الدیب نے سماعت کرنے والے ٹرابیونیل سے استدعا کی تھی کہ اس مقدمے سے متعلق اہم گواہ اور سابق صدر کے وزیر دفاع محمد حسین طنطاوی اور جنرل سامی عنان سمیت 1600 اہم افراد کو گواہی کے لئے عدالت میں طلب کیا جائے۔

ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے مرکزی مقام پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کا جو حالیہ سانحہ رُونما ہوا ہے، شاید وہ اس کی سب سے نمایاں مثال ہے۔ اوسلو میں بم دھماکوں کے علاوہ نزدیک کے جزیرے پر ”یوتھ سمر کیمپ“ میں فائرنگ سے سو سے زیادہ افراد کی ہلاکت نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ 32 سالہ قدامت پسند عیسائی آندرے دائیں بازو کا شدت پسند اور اسلام مخالف خیالات رکھنے والا شخص ہے، جس کا تعلق تارکین ِ وطن مخالف جماعت سے ہے، اس نے یہ خون کی ہولی کھیلی ہے۔ آندرے بیرنگ بریوک (Andres Behring Breivik) نے اپنا تعلق ”نائٹس ٹیمپلر “ (Knights Templar) نامی مزاحمتی تحریک سے بتایا ہے، جو یورپ میں اسلامائزیشن کا مقابلہ کرنے کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔ یہ تنظیم بنیادی طور قدیم زیرزمین دہشت گرد صہیونی تحریک فری میسن کا حصہ ہے۔ فلاسفہ کہتے ہیں کہ انسان قابل ِ تربیت ہے۔ یہ تربیت مثبت بھی ہو سکتی ہے اور منفی بھی۔ مربیانِ اخلاق اگر انسان کو قابل ِ تربیت نہ جانیں تو پھر اخلاق کی تعلیم دینا بے معنی اور لاحاصل ہو جاتا ہے۔ انبیاء کا سارا سلسلہ اور ان کی دعوت اسی نظریے پر مبنی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جزا و سزا کی ضرورت کو قبول کرنے والے کسی نبی کو قبول کریں یا نہ کریں بہرحال انسان کو قابل ِ تربیت ضرور سمجھتے ہیں کیونکہ عدالتوں کا قیام اور ان کے ذریعے جزا و سزا کے نفاذ کا ایک بنیادی مقصد تربیت، تنبیہ اور نذارت بھی ہے۔ فیض کہتے ہیں: ہمیں تمہیں بندگان بے کس ..بشیر بھی ہیں نذیر بھی ہیں
حکومتیں جو کچھ کرتی ہیں ان کی تاثیر عوام کے فکر و نظر پر ضرور ہوتی ہے۔ ذرائع ابلاغ جو کچھ کر رہے ہوتے ہیں اور جو پیغام دے رہے ہوتے ہیں وہ انسانی اذہان کو ضرور متاثر کرتا ہے۔ انسانی فکر کی ساخت پرداخت اور انسانی جذبات کی تحریک، تحریص اور انگیخت میں مختلف عوامل شریک ہوتے ہیں۔ جب مغرب امریکہ کی قیادت میں اسلام مالیخولیا کا شکار ہونے لگا تو ہمیں جہاں مسلمانوں کے بارے میں تشویش لاحق ہوئی، وہاں غیر مسلموں کے بارے میں بھی پریشانی ہونے لگی کہ جیسی فضا پیدا کی جا رہی ہے اس کا اثر ضرور ساری دنیا کے انسانوں پر منفی ہو گا۔ انسانوں کی ایسی وحشت انگیز تربیت، وحشت انگیز مناظر ہی کو جنم دے گی۔ ضروری نہیں کہ آگ لگانے والا صرف دوسروں کا تماشا دیکھتا رہے۔ آگ اس کے اپنے دامن کو بھی پکڑ سکتی ہے اور دوسروں کے راستے میں گڑھا کھودنے والا ضروری نہیں کہ خود محفوظ رہے۔
مسلمانوں کو نفرتوں کا نشانہ بنا کر، ان کی تضحیک کر کے اور اسلام کو دہشت گردی کے برابر قرار دے کر امریکہ کی قیادت میں جب عالم ِ اسلام کے طول و عرض میں آگ بھڑکائی جانا شروع ہوئی تو ہمیں فکر دامن گیر ہوئی کہ آخر کار مشرق و مغرب کے انسانوں پر کیا گزرے گی۔ عراق میں ایک ملین انسانوں کا قتل اور پانچ ملین بچوں کی یتیمی، پھر افغانستان کی بربادی اور اسی طرح ظلم و ستم اور سفاکی کی ہزار داستانیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر رقم کی گئیں۔ اس کے لیے مغربی میڈیا نے جو فضا بنائی اس میں نفرتیں ہی نفرتیں ہیں، غصہ ہی غصہ ہے اور خوف ہی خوف ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سویٹزر لینڈ میں مساجد کے بے ضرر میناروں کی تعمیر پر پابندی، ناروے اور دیگر ممالک میں رسول ِ اسلام کے توہین آمیز کارٹونوں کی بااصرار اور باتکرار اشاعت، نیویارک میں مسجد کے قیام کے خلاف مہم، ٹیری جونز جیسے لوگوں کا قرآن حکیم کو نذرِ آتش کرنا، سلمان رشدی جیسے ہرزہ سراوں کی سرپرستی ، مصر کی باحجاب خاتون مروة الشربینی کا جرمنی کی عدالت میں سرِ عام وحشیانہ قتل اور فرانس میں اسلامی پردے کے خلاف قانون سازی جیسے واقعات بتا رہے تھے کہ مغربی معاشرہ کس طرف کو جا رہا ہے اور انسانوں کے اندر نفرت اور غصہ کی آگ کیسے لاوے کی شکل اختیار کرتی چلی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے امریکی قیادت میں دسیوں ممالک سے مسلمان ملکوں میں لائے جانے والے فوجیوں کو امن کے گیت اور پیار کی لوریاں سنا کر آمادہ جنگ نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے سینوں کو مسلمانوں کے خلاف نفرت کا آتشکدہ بنا کر انھیں آتش و آہن برسانے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ ہمیں ڈر تھا کہ یہ کیفیتیں آخر کار مغربی معاشرے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گی۔ ویسے تو اس کے بہت سے مظاہر دیکھنے اور سننے میں آئے، لیکن ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے مرکزی مقام پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کا جو حالیہ سانحہ رُونما ہوا ہے، شاید وہ اس کی سب سے نمایاں مثال ہے۔ اوسلو میں بم دھماکوں کے علاوہ نزدیک کے جزیرے پر ”یوتھ سمر کیمپ“ میں فائرنگ سے سو سے زیادہ افراد کی ہلاکت نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ 32 سالہ قدامت پسند عیسائی آندرے دائیں بازو کا شدت پسند اور اسلام مخالف خیالات رکھنے والا شخص ہے، جس کا تعلق تارکین ِ وطن مخالف جماعت سے ہے، اس نے یہ خون کی ہولی کھیلی ہے۔ آندرے بیرنگ بریوک (Andres Behring Breivik) نے اپنا تعلق ”نائٹس ٹیمپلر “ (Knights Templar) نامی مزاحمتی تحریک سے بتایا ہے، جو یورپ میں اسلامائزیشن کا مقابلہ کرنے کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔ یہ تنظیم بنیادی طور قدیم زیرزمین دہشت گرد صہیونی تحریک فری میسن کا حصہ ہے۔ آندرے کو فیس بک پر موجود ایک ویڈیو میں جدید رائفل ہاتھ میں تھامے اسلام، مارکسزم اور کثیر الثقافتی معاشرے کے خلاف غصے کا اظہار کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ناروے جسے ایک پرامن اور فلاحی ریاست کے طور پر دیکھا جاتا ہے، یورپ کے شمال میں واقع ہے۔ اس کی آبادی نصف کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد ایسا واقعہ اس سرزمین پر کبھی نہیں ہوا۔  امریکہ اور یورپ میں پیش آنے والے پر تشدد واقعات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں اور یہ تشدد صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ مقامی غیر مسلم لوگوں کے خلاف بھی بہت سے خونی واقعات جنم لے رہے ہیں۔ گویا غیر مسلم آپس میں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے لگے ہیں۔ انسانی معاشرے کی نفسیات کو جاننے والے دانشور اس خطرے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ایسے واقعات آئندہ بڑھتے چلے جائیں گے۔ انتہا پسندی ایک کیفیت بن جائے گی تو پھر وہ مسلمان یا غیر مسلم کو نہیں دیکھے گی۔ ناروے میں ہلاک ہونے والوں میں شاید کوئی بھی مسلمان نہ ہو۔ قبل ازیں یورپ نے دو عالمی جنگیں آپس میں ایک دوسرے کے خلاف لڑی ہیں، مسلمانوں کے خلاف نہیں۔ چند فیصد مسلمانوں کو امریکہ اور یورپ میں دبا بھی لیا جائے، انھیں انسانی حقوق سے محروم بھی کر دیا جائے یا انھیں مغرب سے نکال بھی دیا جائے تو بھی نفرتوں کی جو آگ امریکہ اور اس کے حواریوں نے مسلمانوں کے خلاف بھڑکائی ہے وہ خود ان کے معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ خاکم بدہن، اللہ نہ کرے ایسا ہو، لیکن اللہ کا کوئی بیٹا ہے نہ باپ، وہ سب کا خدا ہے اور اس کے غیر متبدل قوانین اور سنتیں پوری کائنات میں بلا امتیاز جاری و ساری ہیں۔  ابھی جب کہ آگ مغرب میں اتنی نہیں بھڑکی کہ اس پر قابو نہ پایا جاسکے اور ابھی جب کہ مغرب کے ہاتھ میں اقتصادی اور فوجی قوت موجود ہے، مغرب کی حکومتوں کو اپنی حکمت ِ عملی پر نظرثانی کرنا چاہیے۔ مشرق کی زخمی زخمی قوموں کے حال پر انھیں کچھ رحم کرنا چاہیے، تاکہ قدرت ان کے حال پر رحم کرے۔ انھیں اپنے لگائے ہوئے زخموں پر مرہم رکھنا چاہیے۔ مغرب کے دانشوروں کو بھی اپنی اجتماعی بصیرتوں کو بروئے کار لا کر اپنی سول سوسائٹی کو اس گڑھے کی طرف متوجہ کرنا چاہیے، جس طرف ان کے معاشرے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ان معاشروں کی جو منفی تربیت ہو چکی ہے اس کے اثرات زائل کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا۔…تحریر:ثاقب اکبر

اسلامی جمہوریہ ایران کی ہلال احمر کمیٹی کے سربراہ ابوالحسن فقیہ نے صومالیہ کے قحط زدہ عوام کے لۓ ایران کی جانب سے انسان دوستی پر مبنی امداد کی دوسری کھیپ روانہ کرنے کی خبر دی ہے۔ ابوالحسن فقیہ نے کل نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوۓ کہا کہ صومالیہ میں قحط کے شکار عوام کو مدد دینے پر مبنی رہبر انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی تاکید کے پیش نظر ایران آئندہ ہفتے اشیاۓ خورد و نوش اور ادویات وغیرہ پر مشتمل انسان دوستانہ امداد کی دوسری کھیپ صومالیہ روانہ کرے گا۔ ابوالحسن فقیہ نے مزید کہا کہ صومالیہ کے قحط زدہ عوام کے لۓ انسان دوستی پر مبنی امداد کی پہلی کھیپ تین ماہ پہلے صومالیہ روانہ کی گئي تھی جو کہ ساٹھ ٹن اشیاۓ خورد و نوش اور ادویات پر مشتمل تھی۔  واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق صومالیہ کے جنوبی اور مرکزی علاقوں میں کم از کم اٹھائيس لاکھ افراد شدید خشک سالی کے نتیجے میں قحط کے خطرے سے دوچار ہیں اور ان کو امداد کی فوری ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ. .. اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ کانگو میں اس سال خسرہ کی بیماری سے ایک ہزار سے زائد بچے ہلاک ہوئے ہیں۔کانگو میں اقوام متحدہ کے انسانی امور کے مشن کے مطابق کانگو میں جنوری سے جون تک خسرہ کی بیماری میں مبتلا گیارہ لاکھ سے زائد متاثرہ بچوں میں سے ایک ہزار ایک سو پنتالیس بچے ہلاک ہوگئے ہیں۔ مشن کے مطابق کانگو کے پانچ صوبوں میں اب تک 3.1 ملین بچوں کی ویکسینیشن کی جا چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق کانگو میں بچوں کی بڑی تعداد خسرہ کے علاوہ ہیضے اور پولیو میں بھی مبتلا ہیں۔ کانگو میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے علاوہ دیگر نجی ادارے بھی خسرہ سمیت دیگر بیماریوں کی روک تھام کیلئے کام رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے ایک جائزے کے مطابق لیبیا کی جنگ صرف فوجی دباؤ سے تو شاید ختم نہ ہو سکے لیکن سفارت کاری بھی اُس امن کے حصول کا تیز رفتار ذریعہ ثابت نہیں ہو رہی، جس کی بے صبر مغربی طاقتیں امید کر رہی تھیں سفارت کاری کے حوالے سے صورتِ حال کس قدر غیر یقینی ہو گئی ہے، اس کا اندازہ بدھ کو فرانس کے اس اعلان سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر قذافی اقتدار چھوڑ دیں، تو وہ لیبیا میں رہ سکتے ہیں حالانکہ  فرانس وہ ملک ہے، جو قذافی کی فورسز پر اتحادی فوجوں کے حملوں میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ الاں ژوپے کی جانب سے پیش کی گئی یہ تجویز اپوزیشن کے اُن بہت سے باغیوں کو قطعاً پسند نہیں آئی ہو گی، جن کا اصرار ہے کہ قذافی نہ صرف اپنے اکتالیس سالہ دورِ اقتدار کو انجام تک پہنچائیں بلکہ ملک بھی چھوڑ دیں۔ ژوپے کے اس بیان سے سب سے زیادہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لیبیا میں عوامی بغاوت شروع ہونے کے پانچ ماہ بعد اور نیٹو فضائی حملے شروع ہونے کے چار ماہ بعد بھی قذافی کی طرف سے ہونے والی مزاحمت نے کیسے مغربی دُنیا کے مقاصد پر پانی پھیر دیا ہے۔ یہی ژوپے تھے، جنہوں نے 24 فروری کو ایک بیان میں یہ کہا تھا:’’مَیں دل کی گہرائی سے یہ امید کرتا ہوں کہ قذافی ایک لیڈر کے طور پر اپنے آخری لمحات گزار رہے ہیں۔‘‘ مغربی دُنیا کی توقعات جتنی سادہ ہوں گی، اتنا ہی قذافی اس قابل ہوں گے کہ کوئی ایسا سمجھوتہ کر سکیں، جو خود اُن کے لیے زیادہ قابل قبول ہو۔ برطانیہ میں قائم مشاورتی ادارے کراس بارڈر انفارمیشن کے چیئرمین اور لیبیا کے امور کے تجربہ کار ماہر جان مارکس کے خیال میں ژوپے کے تازہ بیان کے بعد قذافی یہ سوچیں گے کہ وہ بین الاقوامی برادری کی صفوں میں پائی جانے والی خلیج کو مزید وسیع کر سکتے ہیں۔ لیبیا کی اپوزیشن کے ایک رکن اور صحافی عاشور شامیس کے خیال میں یہ تصور کرنا محال ہے کہ کئی برسوں کی بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود ملک پر برسرِ اقتدار رہنے والے قذافی لیبیا ہی میں مقیم رہنے کی صورت میں ریٹائرمنٹ کی زندگی ’خاموشی سے اور بغیر کوئی ہنگامہ کھڑا کیے‘ گزاریں گے۔

غزہ پٹی میں محاصرے کے شکار فلسطینیوں کے لۓ انسان دوستی پر مبنی امداد لے جانے والی فرانسیسی کشتی الکرامۃ پر صہیونی ریاست کے حملے کے بعد فلسطین کے جہادی گروہوں کے نمائندوں نے صہیونی ریاست کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوۓ ہیگ میں واقع بین الاقوامی فوجداری عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ دائر کۓ جانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے رہنما اسماعیل رضوان نے الکرامہ کشتی پر اسرائیل کے حملے کو بحری قزاقی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اسرائيل کے خلاف ان غیر انسانی اقدامات کی بنا پر مقدمہ چلایا جانا چاہۓ۔ فلسطینی جماعتوں کے نمائندوں نے عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم سمیت عالمی اور عرب تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قدس کی غاصب حکومت کے مجرمانہ اقدامات اور محاصرے کے خاتمے کے لۓ اقدامات انجام دیں ۔ صہیونی فوج کے کمانڈوز نے گزشتہ روز فرانسیسی کشتی الکرامہ پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔ یہ کشتی کاروان آزادی دو میں شامل ہے اور یونان کے ساحل سے غزہ پٹی کی جانب جارہی تھی اور اس میں صرف انسان دوستی پر مبنی امداد اور انسانی حقوق کے کارکن سوار تھے۔ گزشتہ برس غزہ پٹی کے لۓ انسان دوستانہ امداد لے جانے والے کاروان آزادی ایک پرصہیونی کمانڈوز کے حملے میں ترکی کے نو شہری جاں بحق ہوگۓ تھے۔ واضح رہے کہ صہیونی ریاست نے سنہ دو ہزار سات سے غزہ پٹی کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے۔ غزہ پٹی کے لۓ انسان دوستانہ امداد لے جانے والی کشتی پر صہیونی کمانڈوز کا حملہ اور اس کشتی پر سوار انسانی حقوق کے کارکنوں پر تشدد بحری قزاقی اور جنگی جرائم کا واضح مصداق ہے ۔ صہیونی ریاست کے اقدامات سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ حکومت عالمی حقوق کو کوئي اہمیت نہیں دیتی ہے اور اپنے اقدامات کے ذریعے واضح ترین اخلاقی اور قانونی اصولوں کو پائمال کررہی ہے۔ یورپی حکومتوں کی حما‏‏ئت اور عالمی اداروں کی جانب سے اس حکومت کے خلاف کوئي اقدام نہ کۓ جانے کی وجہ سے یہ حکومت اپنے مظالم اور جرائم کا سلسلہ جاری رکھنے میں زیادہ جری ہوگئي ہے۔ عالمی اداروں نے ایسی حالت میں صہیونی ریاست کے مظالم پر خاموشی سادھ رکھی ہے کہ جب صہیونی ریاست کے جرائم سے متعلق اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کی تحقیقاتی رپورٹوں سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس حکومت نے بارہا ملت فلسطین کے خلاف مظالم کا ارتکاب کیا ہے۔ لیکن اقوام متحدہ سمیت عالمی ادارے صہیونی ریاست کے جرائم کی روک تھام کے لۓ عملی طور پر کوئي اقدام انجام نہیں دے رہے ہیں مثلا بائیس روزہ جنگ میں غزہ کے فلسطینوں کے قتل عام کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی گولڈ اسٹون تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے جامع اور کامل رپورٹ پیش کۓ جانے کے باوجود اس رپورٹ کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی آرکائیو میں محفوظ کردیا گیا اور اسرائیل کے خلاف ہر گز مقدمہ نہیں چلایا گيا۔ حالانکہ سنہ دو ہزار نو میں پیش کی جانے والی گولڈ اسٹون رپورٹ میںصہیونی ریاست کو واضح طور پر ایسا جنگی مجرم قرار دیا گيا کہ جس نے غزہ پر حملے کے دوران انسانیت پر مظالم ڈھانےکا ارتکاب کیا۔ عالمی اداروں کی جانب سے صہیونی ریاست کے خلاف کوئی اقدام نہ کۓ جانےکی وجہ سے ہی یہ حکومت آسودہ خاطر ہو کر اپنے مظالم کا سلسلہ جاری رکھے ہوۓ ہے

مراکش کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد نے حکومت مخالف مظاہرے کرتے ہوئے ملک میں سیاسی اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے۔  پریس ٹی وی کے مطابق رباط، کاسابلانکا اور طنجہ سمیت مراکش کے کئی شہروں میں ہزاروں افراد نے حکومت کے خلاف پرامن مظاہرے کئے۔ مظاہرین جمہوری آئین کی تدوین اور عدالت و انصاف کے قیام کا مطالبہ کر رہے تھے۔  یاد رہے حال ہی میں مراکش میں ایک ملک گیر ریفرنڈم انجام پایا ہے جس میں 98 فیصد عوام نے ملکی آئین میں اصلاحات اور مراکش کے بادشاہ محمد ششم کے اختیارات میں نمایاں کمی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ مظاہرین نے حکومت کی جانب سے آئین میں تبدیلیوں کو غیرحقیقی اور فریبکارانہ قرار دیا۔ ان اصلاحات کی رو سے مراکش کی حکومت کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے لیکن کابینہ، فوج اور عدلیہ کے اختیارات بدستور شاہ مراکش کے ہاتھ میں ہیں۔  20 فروری تحریک جو مراکش میں حکومت مخالف احتجاج برگزار کرنے میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہے نے اعلان کیا ہے کہ اپنے مطالبات پورے ہونے تک احتجاج کو جاری رکھے گی۔

اسلام آباد : پاکستان افریقہ میں نئی قائم ہونے والی ریاست جنوبی سوڈان کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ایک ہفتے کے اندر فیصلہ کر لے گا۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان ریاست کے قیام کے اسباب اور مقاصد پر غور کیے بغیر جنوبی سوڈان کو تسلیم کرلے گا۔ جنوبی سوڈان دنیا کے 193ویں ملک کی حیثیت سے ہفتہ کو قائم ہوا تھا۔ یہ دنیا کا تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔ اپنے فیصلے کے حوالے سے پاکستان ترکی، مصر، سعودی عرب، چین اور اسلامی کانفرنس تنظیم کے فیصلے کو مد نظر رکھے گا۔ ذرائع کے مطابق اس حوالے سے وزیراعظم گیلانی نے سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے جس کا جائزہ لینے کے بعد وہ کوئی فیصلہ کریں گے۔

امریکی حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ جنوبی سوڈان پر اس کی آزادی کے بعد پہلے سے عائد پابندیاں ختم کر دی جائیں گی۔ اس کے برعکس شمالی سوڈان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بلیک لسٹ سے اخراج کے لیے مزید اقدامات کرے۔ رواں سال جنوری میں منعقدہ ایک ریفرنڈم کے تحت اکثریتی طور پر مسیحی آبادی والے جنوبی سوڈان نے مسلم اکثریتی آبادی والے شمالی سوڈان سے علیٰحدگی کا فیصلہ کیا تھا۔ اسی ریفرنڈم کے نتائج کی روشنی میں رواں ماہ کی نو تاریخ کو سوڈانی ریاست دو خود مختار حصوں میں تقسیم ہوجائے گی۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سوزن رائس نے نو جولائی کے حوالے سے صحافیوں کو بتایا کہ امن کا قیام قریب ہے تاہم یہ ایک نازک موقع ہوگا۔  واضح رہے کہ جنوری کا ریفرنڈم 2005ء کے اس امن معاہدے کا حصہ تھا، جس کی بدولت عشروں سے جاری خانہ جنگی ختم ہوئی تھی۔ اس کے باوجود شمالی اور جنوبی سوڈان کے رہنما آبیئی کے سرحدی علاقے کا تنازعہ حل نہیں کر پائے۔  جنوبی سوڈان کے دارالحکومت کے طور پر جوبا شہر کو چنا گیا ہے، جہاں آزادی کی تقریب منعقد ہوگی۔ سوزن رائس اس تقریب میں امریکہ کی نمائندگی کریں گی۔ امریکی حکومت اس ضمن میں خاصی متحرک نظر آرہی ہے کہ جنوبی سوڈان کو مضبوط اقتصادی بنیادیں فراہم کی جا سکیں۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نے شمالی سوڈان سے اقوام متحدہ کے امن دستوں کے جبری انخلاء کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کے بقول خرطوم حکومت کو چاہیے کہ اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرے کیونکہ سرحدی علاقے میں کئی حساس تنازعات ابھی تک حل طلب ہیں۔ ’’ امریکہ اور سلامتی کونسل کے دیگر مستقل ارکان تمام سفارتی اور دیگر ذرائع کا استعمال کر رہے ہیں کہ خرطوم حکومت کو قائل کیا جائے کہ امن دستوں کو ہمیشہ کے لیے وہاں سے نکلنے پر مجبور کرنا اس کے حق میں ٹھیک نہیں۔‘‘  رائس نے اس بات کا انکشاف کیا کہ اُن تکنیکی امور پر کام ہو رہا ہے کہ کس طرح 1993ء سے سوڈان کے خلاف عائد پابندیوں کا اطلاق اب جنوبی سوڈان پر نہ ہو۔ امریکہ ہی کی میزبانی میں رواں سال ستمبر میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جائے گی، جس میں جنوبی سوڈان کے لیے مختلف ترقیاتی منصوبوں پر غور کیا جائے گا۔ واشنگٹن حکومت گزشتہ سال ہی جنوبی سوڈان کے لیے 300 ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کر چکی ہے جبکہ ستمبر میں اسی طرز کے مزید اعلانات متوقع ہیں۔

براعظم افریقہ کے ملک کینیا کے ساحلوں پر واقع بچوں کے ایک ایس او ایس گاؤں کو شمسی توانائی کے ایک منصوبے کے ذریعے روشنی فراہم کی گئی ہے۔ اِس گاؤں کے تقریباً 130 بچے خوش ہیں کہ اب انہیں چوبیس گھنٹے بجلی کی سہولت حاصل رہتی کینیا کے زیادہ تر شہریوں کی طرح ممباسا کے اس اسکول کے بچے بھی طویل عرصے تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے پریشان رہے ہیں۔ اب لیکن مکانوں کے بیچوں بیچ شمسی توانائی کا ایک نیا پلانٹ لگ چکا ہے، جس کی پیداواری گنجائش 60 کلو واٹ ہے۔ یہ مقدار اس ایس و ایس گاؤں اور اس کے ساتھ بنے اسکول کو بجلی فراہم کرنے کے لیے کافی ہے۔  ساحل کے ساتھ ساتھ سورج سے توانائی حاصل کرنے کے زبردست امکانات موجود ہیں۔ تیرہ سالہ ماریا کہتی ہے:’’ہمارے پاس بہت زیادہ دھوپ ہوتی ہے۔ درجہء حرارت زیادہ تر تیس ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ شمسی سیلوں کے لیے یہ بہت اچھا ہے اور اس سے ہمارے گھروں میں بجلی آتی ہے۔‘‘دُنیا کے کسی بھی ایس او ایس چلڈرن ولیج میں شمسی توانائی کا اتنا پڑا پلانٹ نصب نہیں ہے، جتنا کہ ممباسا کے اس گاؤں میں۔ چنانچہ جب اس پلانٹ نے کام کرنا شروع کیا، تو اس موقع پر ایس او ایس چلڈرن ولیجز انٹرنیشنل نامی تنظیم کے آسٹریا سے تعلق رکھنے والے صدر ہیلمٹ کوٹین بھی موجود تھے۔ اُنہوں نے کہا:’’ہمالیہ، نیپال میں ہمارے پاس عام سادہ سے شمسی سیل ہیں لیکن اس جگہ پہلی مرتبہ ہم اُس سے کہیں زیادہ مقدار میں بجلی پیدا کر رہے ہیں، جتنی کہ ہمیں یہاں ضرورت ہے۔ یہ پورے کینیا کے لیے ایک مثال ہے کہ ایسا ممکن ہے۔‘‘ اب تک اس مشرقی افریقی ملک کی تمام تر توجہ ہائیڈرو پاور پر ہے تاہم خشک سالی کے دوران یہ طریقہ کام نہیں کرتا۔ جب بجلی دستیاب نہیں ہوتی، تو جو لوگ اس کے متحمل ہو سکتے ہیں، وہ ڈیزل جنریٹرز چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے ہر طرف ڈیزل جلنے کی بُو اور دھواں پھیل جاتا ہے اور ماحول کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ یہ پلانٹ جرمن شہر ہائیڈل برگ کے ایک ادارے نے کینیا کے ایک ساتھی ادارے کے ساتھ مل کر تیار کیا ہے۔ تکنیکی تعاون کی جرمن انجمن جی ٹی زیڈ کے زیر نگرانی تیار ہونے والے اس پلانٹ پر ایک لاکھ اَسی ہزار یورو لاگت آئی ہے۔ چونکہ اس ایس او ایس ولیج میں ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا ہوتی ہے، اس لیے اب ایسے امکانات تلاش کیے جا رہے ہیں، جن کی مدد سے اضافی بجلی فروخت کی جا سکے۔ اس طرح بچوں کے اس گاؤں کو اضافی آمدنی بھی حاصل ہو سکے گی۔

فرانس نے اعتراف کیا ہے کہ پیرس حکومت نے لیبیا کے باغیوں کو اسلحہ فراہم کیا ہے تاکہ وہ قذافی کی فوج کے خلاف مؤثر کارروائی کر سکیں۔ دوسری طرف افریقی یونین نے اس عمل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔  بدھ کے دن اقوﺍم متحدہ کے لیے فرانسیسی سفیر Gerard Araud نے کہا ہے کہ لیبیا کے باغیوں کو اسلحہ فراہم کرنا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے منافی نہیں ہے،’ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ لیبیا کے عوام کو اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ دیا جائے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ خطرے میں ہیں‘۔ فرانسیسی حکام نے کہا ہے کہ لیبیا کے باغیوں کو ہلکی نوعیت کا اسلحہ فراہم کیا گیا ہے۔ لیکن دوسری طرف ایسی خبریں بھی ہیں کہ باغیوں کو فراہم کیے جانے والے اسلحے میں راکٹ لانچرز اور اینٹی ٹینک میزائل بھی شامل ہیں۔  اُدھرافریقی یونین کمیشن کے سربراہ ژاں پنگ کے بقول لیبیا کے عوام میں اسلحہ تقسیم کرنے سے وہاں صومالیہ جیسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے، جو طویل المدتی بنیادوں پر علاقائی امن کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔  افریقی یونین سمٹ کا ایک اجلاس آج جمعرات تیس جون کو ایکواٹیورل گنی میں منعقد کیا جا رہا ہے، جس میں لیبیا کی صورتحال بنیادی ایجنڈا ہو گا۔ اس دو روزہ سمٹ کے آغاز سے قبل پنگ نے مزید کہا کہ لیبیا کے عوام میں اسلحہ تقسیم کرنے کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے،’ اس سے خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے، لیبیا تقسیم ہونے کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے، وہاں صومالیہ جیسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہاں ہر جگہ اسلحہ موجود ہو گا اور جس سے دہشت گردی کا خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے‘۔ ان کے بقول اس صورتحال میں علاقائی سکیورٹی پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ افریقی یونین کے رہنما پنگ کے بقول قذافی کے عالمی ورانٹ جاری کرنے سے لیبیا کا بحران مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے۔  دریں اثناء امریکی صدر باراک اوباما نے لیبیا پر اختیار کی گئی اپنی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے تمام تر تنقید کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ قذافی کی جارحیت کا جواب دینے کے لیے جو حکمت عملی بنائی گئی ہے اس سے ہزاروں جانیں محفوظ بنا ئی گئی ہیں۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ لیبیا کا آپریشن زیادہ طویل نہیں ہو گا اور اس میں امریکی معاونت میں کسی اضافے کا امکان نہیں ہے۔

کیپ ٹاؤن …امریکی خاتونِ اول مشعیل اوباما آجکل جنوبی افریقہ کا دورہ کررہی ہیں تاہم افریقی صدر جیک زوما انہیں اس دورے کے موقعے پر بالکل لفٹ نہیں کروارہے۔تفصیلات کے مطابق جنوبی افریقہ کے دورے پر پہنچنے والی مشل اوبامہ کے استقبال کے لیے جہاں ائیر پورٹ پر جیکب زوما کے بجائے وزیرِ جیل پہنچے وہیں انکے تین روزہ دورے پر صدر زوما نے انہیں ایک بار بھی شرفِ ملاقات نہیں بخشا۔جیکب زوما کے صدارتی ترجمان کا کہنا تھا کہ انکا شیڈول بہت مصروف تھا اس لیے وہ امریکی صدر کی اہلیہ مشل اوبامہ کے لیے وقت نہیں نکال سکے جبکہ دوسری جانب تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ اور جنوبی افریقہ کے درمیان لیبیا کے معاملے پر بڑھتی کشیدگی شاید ملاقات نہ کرنے کی اصل وجہ تھی۔خیر افریقی صدر نے تو مشل اوبامہ کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ان سے ملاقات کو غیر اہم سمجھا تاہم مشل دیگر افراد بشمول سابق صدر نیلسن منڈیلا سے ملاقات کرنے اور افریقی بچوں کیساتھ وقت گزارتی میڈیا کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب نظر آئیں

بالکل ابتدائی دور سے جب ڈچ آباد کار یہاں آنے شروع ہوئے نیو یارک امریکہ آنے والے تارکین ِ وطن کی پہلی منزل رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں افریقہ کے تارکین وطن بھی نیو یارک آنے لگے ہیں۔  1980ء سے اب تک پانچ لاکھ سے زیادہ افریقی تارکین ِ وطن امریکہ پہنچے ہیں اور ان میں سے بہت سے نیو یارک میں آباد ہو گئے ہیں۔ لیکن ان کی آمد کے ساتھ ہی کچھ معاشرتی مسائل بھی پیدا ہوئےہیں خاص طور سے مغربی افریقہ کی نوجوان عورتوں کے لیے جو اس شہر میں کام کرتی ہیں۔  مغربی افریقہ کے تارکین وطن کی ایک بڑی بستی نیو یارک میں برونکس کے علاقے میں واقع ہے۔ یہ بڑے محنتی اور مذہبی لوگ ہیں جو ایک بالکل مختلف ماحول میں اپنے لیے اور اپنے  گھرانے کے لوگوں کے لیے  نئی زندگی بنا رہے ہیں۔ بہت سی عورتیں،آیا ،  یا گھریلو ملازمہ کے طور پر یا ہوٹلوں میں کام کرتی ہیں یا اسکول کالج جاتی ہیں۔ اور بہت سی عورتیں خوفزدہ رہتی ہیں، جیسے فاتئو نام کی یہ  خاتون جو گھریلو ملازمہ  ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’مجھے لوگوں سے بات کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ کہیں میری ملازمت نہ چلی جائے۔  فاتئو کہتی ہیں کہ ایک مالک کے بیٹے نے اس کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ ایک لحاظ سے یہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سابق سربراہ  ڈومینک اسٹارس کان جیسا کیس تھا جن پر مغربی افریقہ  سے تعلق رکھنے والی ہوٹل کی ایک ملازمہ پر حملہ کرنے کا الزا م ہے اور  جو اب مقدمہ چلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ Dorchen Leidoholdt  ایک گروپ کی ڈائریکٹر ہیں جس کا نام سینکچری فار فیمیلیز ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمارا گروپ  تارکین وطن عورتوں کی مدد کی کوشش کرتا ہے۔’’دوسرے ملکوں سے آئی ہوئی عورتوں، خاص طور سے تارکین وطن نوجوان عورتوں کو کام کی جگہ پر جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے ۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق لاطینی امریکہ، ایشیا،  یا افریقہ سے ہوتا ہے جیسا کہ  اس کیس میں تھا۔ ان کو روزگار دینے والے، ان کے ساتھ کیسا ہولناک سلوک کرتےہیں، اس بارے میں ہم افسوسناک کہانیاں سنتے ہیں۔  دی نیشنل ڈومیسٹک ورکرز الائینس ایسے بین الاقوامی قانون کا مطالبہ کر رہی ہے جس کے تحت  کام کی جگہ پر پریشان کرنے کی ممانعت ہو گی۔ Ai-Jen Poo کہتی ہیں کہ گھریلو ملازماؤں اور ہوٹل کی خادماؤں کے مسائل ایک جیسے ہیں۔’’گھریلو کام کی صنعت میں  ہم ان مسائل کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں کوئی قاعدہ قانون نہیں ہے۔ سب چلتا ہے ۔کوئی ضابطہ نہیں ہے، کوئی معیار نہیں ہے، اور بہت کم تحفظ ہے۔انفرادی ورکرز کو  جو اکثر تنہا ہوتےہیں، خود اپنے حقوق کے لیے لڑنا پڑتا ہے ۔  مین ہٹن کے جان جے کالج میں ، گنی کی رہنے والی میری ٹوئر سے کہا گیا کہ اگر وہ جنسی تعلقات  قائم کرنے پر تیار ہو جائے تو اسے بہتر گریڈ  مل سکتا ہے۔  اس نے بتایا’’یہ بڑی مشکل صورتِ حال تھی۔ مجھے اپنا گریڈ پوائنٹ ایوریج بھی قائم رکھنا تھا۔ اگر کوئی پروفیسر  جسے آپ کی حفاظت کرنی چاہیئے ،آپ سے اس قسم کی بات کہے ،  تو آپ کیا کریں گے ۔  کونسلر میریاما ڈیالو بھی مغربی افریقہ کی رہنے والی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ کام کی جگہ پر یا اسکول میں، اس قسم کے نفسیاتی  اثرات اور خطرات   بڑے شدید ہوتےہیں۔’’جب یہ عورتیں اپنے تجربات بیان کرتی ہیں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پر کتنا زیادہ اثر ہوا ہے ۔ آپ ان کی نفسیاتی کیفیت کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ وہ ڈراؤنے خواب دیکھتی  ہیں، ان  کی نیند اڑ جاتی ہے، اور جب وہ ہمارے پاس آتی ہیں تو ان کے آنسو نہیں تھمتے۔  تارکین وطن کے معاملات کے لیے نیو یارک سٹی  کی  کمشنر، فاطمہ شمع  کہتی ہیں کہ نیو یارک سٹی اور ریاست ان عورتوں کی مدد کی کوشش کر رہی ہے ، اور انہیں یقین دلا رہی ہے  کہ انہیں مدد مل سکتی ہے، چاہے ان کے پاس امریکہ میں رہنے کے کاغذات ہوں یا نہ ہوں۔’’ہم  جانتے ہیں کہ  یہ عورتیں خوفزدہ ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بدقسمتی سے ہماری کمیونٹیوں میں کیا ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج کی بات چیت  کے ذریعے، یہ بات دہرا سکتے ہیں کہ ایسی ایجنسیاں اور ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں اور ان کی خیر و عافیت میں دلچسپی لیتے ہیں، کوئی امیگریشن کا مسئلہ ہو، غیر قانونی قیام کا مسئلہ ہو، یا کوئی اور مسئلہ جس میں صارفین  کی حفاظت نہیں کی جا رہی ہے یا انہیں ستایا جا رہا ہے۔  سینٹر فار بیٹرڈ وومینز لیگل سروسز کے مطابق، یہ حقیقت کہ اسٹرائس کاہن کیس میں، متعلقہ عورت نے ہمت کی اور اس واقعے کی رپورٹ پولیس کو کردی،  کام کرنے والی تارکین وطن عورتوں اور طالبات کے لیے نفسیاتی طور پر انتہائی اہم ثابت ہو سکتی ہے۔

منامہ کے علاقے الدراز کے مسجد امام صادق میں جمعہ کی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آیت اللہ شیخ عیسی قاسم نے حضرت علی علیہ السلام کو قرآن ناطق قرار دیتے ہوئے کہا: امیرالمؤمنین علیہ السلام حقیقتاً قرآن ناطق ہیں کیونکہ آپ (ع) نے اپنی پوری زندگی میں قرآن کی بغیر کوئی موقف نہیں اپنایا اور کوئی لفظ نہیں بولا اور آپ (ع) کا پورا کلام اور پوری سیرت قرآن کریم سے مأخوذ ہے۔  رپورٹ کے مطابق آیت اللہ شیخ عیسی احمد قاسم نے امیرالمؤمنین (ع) کی ولادت کی مناسبت سے آپ (ع) کی سیرت کا جائزہ لیتے ہوئے کہا: متقین عالم کے اولین پیشوا حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی زندگی خالص محمدی اسلام کا نمونہ کاملہ ہیں یہاں تک کہ آپ (ع) کی زندگی کا ہر لمحہ دین کی اقدار اور احکام سے بھرپور ہے اور دنیا میں کوئی بھی دعوی نہیں کرسکتا کہ علی علیہ السلام کے قول و فعل یا زندگی کا کوئی پہلو اسلام سے مطابقت نہیں رکھتا۔  انھوں نے عقیلۂ بنی ہاشم سیدہ زینب کبری سلام اللہ علیہا کے روز وفات کی آمد پر مسلمانان عالم کو تعزیت و تسلیت کہتے ہوئے کہا: حضرت زینب (س) نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آغوش میں پرورش پائی ہے اور آپ (س) نے عظیم و مقتدر شخصیات کو پروان چڑھانے میں کردار ادا کیا ہے چنانچہ جن خواتین نے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو اپنے لئے نمونۂ عمل قرار دیا ہے وہ ایمان، ثابت قدمی، عزم و استقامت کی مالک ہیں اور مختلف شعبوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہیں اور ان سے برابری کرتی ہیں اور عظمت و پامردی کے خوبصورت مناظر انسانیت کے سامنے پیش کررہی ہیں۔  آیت اللہ شیخ عیسی قاسم نے عرب انقلابات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ انقلابات پرامن ہیں اور پرامن جدوجہد ان سارے انقلابات کی مشترکہ قدر ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان انقلابات کو قلع قمع کرنے کی سازشوں اور دہشت گردی، قتل عام اور خونریزی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ شیعیان بحرین کے قائد نے کہا: حکمرانوں کا پرتشدد رد عمل عوامی مطالبات میں اضافے کا سبب بنا ہے اور لوگوں کے اعتراضات و احتجاجات میں شدت آئی اور جب حکومتوں کا رویہ تشدد آمیز ہو اور عوام بھی اپنے احتجاج کو شدت بخشتے ہیں تو ان حکومتوں کے رد عمل اور جبر و تشدد میں اضافہ ہوتا ہے اور سرکاری فورسز ان عوام کو قلع قمع کرتی ہیں جن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ انھوں نے حکام کے ہاتھوں اقدار کی پامالی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا: عرب نظام ہائے حکومت نے کئی مہینوں سے دینی اقدار، شریعت اور قانون کے ضوابط و قواعد، معاشرتی اور بین الاقوامی عرف اور رویوں اور انسانی اقدار کو پامال کررہی ہیں اور آخر میں یہ تیونس اور مصر جیسی ڈکٹیٹر حکومتیں ہی ہیں جو شکست سے دوچار ہوجاتی ہیں لیکن جھرپوں اور جبر و تشدد اور عوامی مطالبات کی صدا کو زور زبردستی خاموش کرنے کی کوششوں سے ملکوں کو نقصان پہنچتا ہے اور ان کے مسائل میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ آیت اللہ شیخ عیسی قاسم نے زور دے کر کہا: اقوام کم ہی اپنی پرامن جدوجہد کو جاری رکھنے پر قادر ہوتی ہیں لیکن اس طرح کی جدوجہد اپنے وطن کی خدمت شمار ہوتی ہے اور اس کے لئے صبر واستقامت اور کثیر مشکلات و مسائل برداشت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا: ملت بحرین اس سلسلے میں کامیاب ہوگئی ہے اور صبر و استقامت سمیت جدوجہد کے پرامن ہونے پر اصرار کرکے دنیا کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ انھوں نے آل خلیفہ کی طرف سے اصلاحات کز دعؤوں کو بیہودہ قرار دیا۔ انھوں نے خبردار کیا کہ عوام کی پرامن تحریک تشدد پر بھی منتج ہوسکتی ہے۔ شیخ عیسی قاسم نے  124 روزہ انقلاب کے آغاز سے لے کر اب تک تمام خطبے کفن پوش ہوکر پڑھے ہیں اور اس خطبے میں بھی وہ کفن پوش ہی تھے۔ انھوں نے کہا: سرکاری فورسز لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز کرنے سے بازرہیں اور عوام کو اپنے جائز حقوق کے لئے پرامن جدوجہد کے دائرے سے خارج ہونے پر مجبور نہ کریں۔ انھوں نے کہا کہ آل خلیفہ حکومت عوام کو تشدد آمیز اقدامات پر مجبور کرنا چاہتی ہے تا کہ اپنے لئے عوام کے وسیع طور قتل عام کا جواز فراہم کرسکے۔ انھوں نے عوام سے کہا: جدوجہد کے پرامن پہلو کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور تمام اجتماعات اور مظاہروں میں پرامن رہیں۔ جس طرح کہ شیخ علی سلمان کی طرح تمام بحرینی راہنماؤں نے بھی اس مسئلے پر زور دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ عوام سیاسی اصلاحات چاہتے ہیں لیکن اصلاحات حقیقی ہونی چاہئیں اور نمائشی اور ظاہری اصلاحات کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ لوگوں کو بنیادی اور قائل کردینے والی اصلاحات کی ضرورت ہے جن کے نتیجے میں ملک کے عوام کو خوشنودی اور سکون حاصل ہوجائے اوران کے دینی اور دنیاوی حقوق کے حصول کو ممکن بناسکیں اور عوام کی عزت و کرامت کیا تحفظ کرسکیں۔  انھوں نے کہا: اس وقت اصلاحات کے دعوے بے معنی ہیں جبکہ جیلیں عوام سے بھری پڑی ہیں۔ لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء کے حصول میں دشواریوں کا سامنا ہے، ہزاروں مزدور، ملازمین اور طلبہ کو روزگار اور تعلیم سے محروم کردیا گیا ہے اور دینی اعمال کی انجام دہی کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور انقلاب اور انقلابی عوام کے خلاف حکومت کی جھوٹی تشہیراتی مہم بدستور جاری ہے ایسے میں اصلاحات کا دعوی چہ معنی دارد؟۔ آیت اللہ شیخ عیسی قاسم نے آخر میں کہا: ہم عدل و انصاف پر مبنی حیات چاہتے ہیں؛ لیکن انھوں نے ظالمانہ حیات مسلط کرنے کا عزم کررکھا ہے؛ ہم برادری اور اخوت پر مبنی معاشرہ چاہتے ہیں جبکہ وہ پارہ پارہ اور دشمنیوں سے بھرا ہوا معاشرہ چاہتے ہیں؛ ہم امن و آشتی سے سرشار وطن چاہتے ہیں جبکہ انہیں جنگ و جدل سے بھرپور ملک چاہئے؛ لیکن اللہ لا یخذل من اصلح عملہ = اللہ ان لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑتا جو اپنے اعمال کی اصلاح کرتے ہیں اور انہیں اس (اللہ) کے لئے خالص کردیتے ہیں

تیونس کی ایک عدالت نے سابق صدر زین العابدین بن علی کو غیر حاضری میں پینتیس برس کی سزا سنا دی ہے۔ تیونس میں عوامی بغاوت اور مظاہروں کے نتیجے میں سابق صدر زین العابدین بن علی کی حکومت کا تختہ الٹنے اور ان کے سعودی عرب فرار ہو جانے کے بعد ان کی غیر حاضری میں تیونس کی عدالت نے انہیں پینتیس سال قید کی سزا سنا دی ہے۔  بن علی پر غیر قانونی زیور اور بھاری نقد رقم رکھنے کا الزام تھا۔ عدالت نے بن علی کی اہلیہ کو بھی اتنی ہی سزا سنائی ہے۔ بن علی اپنے تئیس سالہ اقتدار کے خاتمے کے بعد اپنی اہلیہ کے ہمراہ چودہ جنوری کو سعودی عرب چلے گئے تھے، جہاں وہ پناہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔ تیونس کے عوامی مظاہروں نے عرب ممالک میں جمہورت اور سیاسی و معاشی اصلاحات کے حصول کے لیے تحریکوں کو جنم دیا جنہیں ’عرب اسپرنگ‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ تیونس کے بعد مصر میں سابق صدر حسنی مبارک کو عوامی مظاہروں کے بعد اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑے۔ مبارک پر قاہرہ کی ایک عدالت میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ بحرین، شام، یمن اور لیبیا میں بھی مطلق العنان حکمرانوں کو عوامی غیض و غضب کا سامنا ہے۔ ادھر بن علی کے اٹارنی نے تیونس کی عدالت کے فیصلے کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’یہ ایک مذاق ہے۔ آپ مذاق کا بدلہ نہیں لیتے۔ آپ صرف اس پہ ہنس سکتے ہیں۔‘‘ تیونس کے سابق صدر پر ایک دوسرے مقدمے کی سماعت تیس جون تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ یہ مقدمہ بن علی پر اسلحہ اور منشیات رکھنے کے الزام کے حوالے سے چلایا جا رہا ہے۔ خیال رہے کہ بن علی اپنے اوپر عائد تمام الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔

امریکی وزير دفاع نے اپنے ایک بیان میں لیبیا میں جنگ کے اہداف کے بارے میں کہا ہے کہ لیبیا میں جنگ کا مقصد کرنل معمر قذافی کو اقتدار سے الگ کرنا ہے۔  امریکی وزير دفاعرابرٹ گیٹس  نے اپنے ایک بیان میں لیبیا میں جنگ کے اہداف کے بارے میں کہا ہے کہ لیبیا میں جنگ کا مقصد کرنل معمر قذافی کو اقتدار سے الگ کرنا ہے۔ امیرکی وزير دفاع نے کہا کہ لیبیا کی حکومت روبروز کمزور ہوتی جارہی ہے اور اس کے صرف چند دن باقی ہیں رابرٹ گیٹس نے کہا کہ قذافی کو اپنے ہی فوجی یا اس کے خاندان والے ہلاک کرسکتے ہیں۔امریکی وزير دفاع نے لیبیا کی جنگ کے بارے میں امریکی کانگریس کی اوبامہ حکومت پر تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا کہ محدود اور ضربتی کارروائیوں کے لئے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔

برسلز (اے پی پی) یورپین یونین نے شام کیخلاف پابندیاں سخت کرنا شروع کر دیں۔ صدر بشار الاسد کے اہم حامیوں اوران کی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کرنے پر غور کیا گیا۔ سفارتی ذرائع نے بتایا کہ 27 رکنی بلاک کے ماہرین شام کیخلاف پابندیوں کے دائرہ کو وسیع کرنے کے مختلف طریقوں پر غور کر رہے ہیں۔ یورپی یونین کے ذرائع کے مطابق تقریباً ایک درجن شامیوں کو اثاثے منجمد ہونے اور سفری پابندیوں کا سامنا ہو سکتا ہے اور جن کمپنیوں کے ساتھ وہ منسلک ہیں ان پر پابندیوں کا فیصلہ بعد میں کیا جائیگا۔ ذرائع نے بتایا کہ نئی تجاویز وزرائے خارجہ کے پیر کو لکسمبرگ اجلاس تک تیار نہیں ہو سکیں گی لیکن23-24 جون کو یونین کی سمٹ میٹنگ تک ان تجاویز کے تیار ہونے کی امید ہے۔ بہت سی یورپی اقوام خاص کر برطانیہ، فرانس، جرمنی اور پرتگال نے اقوام متحدہ میں قرارداد کے حق میں امریکہ کا ساتھ دیا لیکن سلامتی کونسل کے مستقل ممبرز چین اور روس نے مخالفت کی۔

موغادیشو کی ایک عدالت نے امریکی اور برطانوی شہریوں کے بشمول چھ غیر ملکیوں کو تاوان کی رقم قزاقوں تک پہنچانے کے الزام پر دس تا پندرہ برس کی قید کی سزا سنا دی ہے  خانہ جنگی کے شکار ملک صومالیہ کے دارالحکومت میں یہ فیصلہ ہفتہ کو سنایا گیا۔ اس سے قبل ملزمان کے پاس سے مبینہ طور پر 3 اعشاریہ چھ ملین ڈالر برآمد ہوئے تھے۔ عدالت کے جج ہاشی علمی نوری نے صحافیوں کو بتایا کہ ایک امریکی اور ایک برطانوی شہری جو یہ نقد رقم لے کر آرہے تھے، دونوں کو پندرہ برس قید اور 15 ہزار ڈالر فی کس جرمانہ ادا کرنے کی سزا سنائی گئی ہے۔ دیگر چار افراد کو دس دس برس قید اور دس دس ہزار ڈالر جرمانہ ادا کرنے کی سزا سنائی گئی ہے۔ سزا پانے والے ان چار افراد میں دو برطانوی شہری اور دو کینیا کے باشندے شامل ہیں۔  صومالی حکومت کے ایک دوسرے عہدیدار محمد عمر کے بقول یہ افراد تین ملین ڈالر سے زائد کی نقد رقم لے کر ایک چھوٹے طیارے کے ساتھ موغادیشو میں اترے اور وہاں ایک دوسرے چھوٹے طیارے کا انتظار کر رہے تھے، جس کے ذریعے مبینہ طور پر یہ رقم قزاقوں تک پہنچائی جانی تھی۔ محمد عمر کے بقول یہ واقعہ 24 مئی کو پیش آیا تھا۔ 1991ء میں خانہ جنگی کے  آغاز سے اب تک صومالیہ میں مرکزی حکومت کی گرفت خاصی کمزور ہے، اسی تناظر میں فوری طور پر آزاد ذرائع سے اس سارے معاملے کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔  طویل ساحلی پٹی کے باوجود صومالیہ کے پاس ایک بھرپور قوت والی متحرک بحریہ نہیں ہے جو قزاقوں کا مقابلہ کرسکے۔ اس مسلم اکثریتی آبادی والے افریقی ملک کو ناکام ریاست اور دنیا کے خطرناک ترین مقامات میں سے ایک شمار  کیا جاتا ہے۔  اقوام متحدہ کے مطابق قرن افریقہ کے اس ملک سے تعلق رکھنے والے قزاقوں کو گزشتہ سال مختلف واقعات میں 110 ملین ڈالر سے زائد کی رقم ادا کی جاچکی ہے۔ صومالی حکومت قزاقوں کو تاوان کی ادائیگی کی مخالف ہے۔ لندن میں برطانوی دفتر خارجہ کے مطابق وہ موغادیشوکی عدالت کے حالیہ فیصلے سے باخبر ہیں اور قانونی چارہ جوئی کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ واضح رہے کہ یہ غیر ملکیوں کو قزاقوں تک تاوان کی رقم پہنچانے کے الزام پر سزا دینے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے کل جنیوا میں اپنے اجلاس میں ایران کے لۓ ایک خصوصی رپورٹر کا انتخاب کیا ہے جو ایران میں انسانی حقوق کا جائزہ لےکر اس سلسلے میں رپورٹ پیش کرے گا۔ واضح رہےکہ امریکہ اور دوسرے چند ممالک کی جانب سے ایران میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں بے بنیاد تشویش کا اظہار کیا گيا ہے۔ امریکہ نے خاص طور پر حالیہ دو برسوں کے دوران ایران کی پرامن ایٹمی سرگرمیوں کو بہانہ بنا کر اس پر پابندیاں لگانے ، فوجی کارروائی کی دھمکی دینے ، سافٹ وار اور سنہ دو ہزار نو میں صدارتی انتخابات کے بعد ہنگامے کرانے جیسے مختلف حربوں کے ذریعے ایران کی غلط تصویر پیش کرنےکی کوشش کی۔اور اب امریکہ نے ایران کے خلاف نۓ اقدامات انجام دینے کے لۓ انسانی حقوق کو حربے کے طور پر اختیار کرلیا ہے۔ امریکہ اور چند دوسرے ممالک کی کوششوں کے ساتھ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے اپریل کے مہینے میں جنیوا میں ایران کے خلاف ایک قرار داد پاس کی تھی۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا قیام سنہ دو ہزار چھ میں عمل میں آیا۔ اس کونسل کی کارکردگی کے حوالے سے سب سے اہم تشویش یہ ہے کہ یہ کونسل یورپی دباؤ میں آجاتی ہے اور اس کونسل کو ناجائز سیاسی مقاصد کے لۓ ایک حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ بہت سے قرائن سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ ایران کے لۓ انسانی حقوق کا رپورٹر مقرر کۓ جانے کا مقصد انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینا نہیں ہے بلکہ اسے خاص مقاصد کے حصول کے لۓ معین کیا گيا ہے۔ اور یہ اقدام ایسے عالم میں انجام دیا گيا ہے کہ جب اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے غالب اکثریت کے ساتھ ایک قرار داد منظور کی جس کے مطابق خود انسانی حقوق کونسل کی صورتحال پر نظر ثانی اور اس کا جائزہ لۓ جانے کو ضروری قرار دیا گيا ہے۔ یہ قرار داد کئي مہینوں تک کے غور و خوض کے بعد جمعے کے دن پیش کی گئي اور امریکہ ، کینیڈا اور صیہونی حکومت کی کوششوں کے باوجود اس کے حق میں ایک سو چون ووٹ ڈالے گۓ جبکہ اس کے خلاف صرف چار ووٹ پڑے اور یہ قرار داد منظور کر لی گئي۔ انسانی حقوق کونسل کی صورتحال پر نظر ثانی کی قرارداد کے سلسلے میں ہونے والی ووٹنگ میں اقوام متحدہ کے ایک سوچورانوے ممالک کے مقابل میں صرف چار ووٹ ڈالے جانے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ عالمی برادری اس کونسل کے امتیازی رویۓ سے راضی نہیں ہے اور وہ موجودہ صورتحال میں تبدیلی کی خواہاں ہے۔ امریکہ ایسے عالم میں اپنے آپ کو دنیا میں انسانی حقوق اور جمہوریت کا حامی ظاہر کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ جب اس نے عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے مطالبے کے باوجود ابھی تک گوانتاناموبے اور ابوغریب جیلوں کو بند نہیں کیا ہے۔ امریکہ نے خطے میں اپنے ناجائز سیاسی مفادات کے تحفظ کے لۓ بحرین اور یمن میں ہونے والے عوام کے قتل عام پر آنکھیں بند کررکھی ہیں۔ حقیقت یہ ہےکہ امریکہ اور چند دوسرے ممالک نیز صیہونی حکومت انسانی حقوق سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے درپے ہیں۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل یورپ کے پیدا کردہ خاص ماحول میں یورپی حکومتوں کے مقاصد کی آلۂ کار بن کر رہ گئي ہے اور اس نے ان یورپی ممالک کے مفادات کے لۓ دنیا کی بعض اقوام کو نشانہ بنا رکھا ہے۔ ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی بے بنیاد دعوی بھی اسی سیاسی رویۓ سے مستثنی نہیں ہے۔ خاص طور پر اس بات کے پیش نظر کہ حالیہ دو برسوں کے دوران ایران کے امور میں یورپ کی مداخلت پسندانہ پالیسیوں کو جائز ظاہر کرنے کے لۓ ایسے ہی دعوے کۓ جاتے رہے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ اقوام کے منصفانہ حقوق کا خیال نہ رکھے جانے اور ان کو سیاسی رنگ دینے کے بہت ہی ناگوار نتائج برآمد ہوں گے ۔ اور ان میں سب سے معمولی نتیجہ یہ برآمد ہوگا کہ اقوام متحدہ کی ساکھ ختم ہو کر رہ جاۓ گی۔

یورپ اور جنوبی افریقہ کی 12 لیبر یونینون نی آل خلیفہ حکومت کی طرف سے عالمی لیبر قوانین کی خلاف ورزی اور بحرینی ملازمین اور مزدوروں کی برخاستگی پر عالمی اداروں سے شکایت کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یورپ کے ممالک: بلجیئم، فرانس، امریکہ، برطانیہ، ناروے نیز جنوبی افریقہ میں 12 لیبر یونینوں نے آل خلیفہ حکومت کی طرف سے عالمی لیبر قوانین کی خلاف ورزی اور سینکڑوں بحرینی ملازمین اور مزدوروں کی برخاستگی پر عالمی اداروں سے شکایت کی ہے۔  یہ شکایت بحرین کی حکومت کے خلاف بین الاقوامی معاہدوں اور مزدوروں کے ساتھ امتیازی رویہ اپنانے کی بنا پر تیار کی گئی ہے۔  اس رپورٹ کے مطابق آل خلیفہ نے بہت سی یونینوں اور کمپنیوں کے سربراہوں کو ان کے ملازمین کی حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کرنے پر، سزائیں دی ہیں اور آل خلیفہ حکومت ملازمین کی بھرتی میں بھی امتیازی سلوک روا رکھتی ہے اور اس حکومت نے تمام مزدوروں اور ملازمین سے کہا ہے کہ “آل خلیفہ خاندان سے وفاداری کی دستاویزات” پر دستخط کردیں۔  یورپی اور افریقی یونینوں نے بین الاقوامی تنظیموں سے درخواست کی ہے کہ آل خلیفہ حکومت کو بین الاقوامی قوانین اور معاہدات کی پابندی کرنے پر مجبور کردیں۔

رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رح کی بائيسویں برسی کے اجتماع سے خطاب میں فرمایا ہے کہ علاقے کی قوموں کی تحریکوں کی تیں خصوصیتیں ہیں جو امریکہ اور صہیونیزم مخالف اسلامی اور عوامی ہونا ہے۔  رہبر انقلاب اسلامی نے لاکھوں افراد سے خطاب میں علاقے کے ملکوں کے حالات کے تعلق سے اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جہاں کہیں بھی امریکہ کے خلاف عوامی اور اسلامی تحریک ہوگي اسلامی جمہوریہ ایران اس کی حمایت کرے گا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر کسی ملک میں امریکہ اور صہیونیوں کے بھڑکانے پر کام ہو رہا ہے تو ایران اس کی حمایت نہيں کرتا ہے ۔ رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمي خامنہ ای نے علاقے کی تحریکوں کو عظیم اسلامی بیداری سے تعبیر کیا جو نہایت اثرانداز اور تاريخ ساز ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ان قوموں کو جو اپنی جدوجہد میں کامیاب ہوئي ہیں بالخصوص ملت مصر کو کہ جو ایک عظیم اور غنی اسلامی تہذیب کی حامل ہے، ہوشیار رہنا چاہیے کہ دشمن دیگر راستوں سے واپس نہ پلٹ آئے۔ آپ نے علاقے کے ملکوں کی مدد کرنے پر مبنی مغرب کے دعووں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مدد بذات خود مصیبت کا سبب اور ملکوں پر تسلط کے مضبوط ہونے کا باعث ہے۔ رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ قوموں کو کچلنے سے کوئي فائدہ نہیں ہوگا بلکہ قومیں جب بیدار ہوجاتی ہیں اور اپنی توانائيوں کو سمجھ لیتی ہیں تو اپنی تحریک کو جاری رکھتی ہیں۔ آپ نے قوموں کی حتمی کامیابی پر تاکید فرمائي اور کہا کہ دشمنوں کی خاص طور پر ایران کے بارے میں تفرقہ انگیز سازشوں سے کہ سامراج سے مقابلے کا مرکز ہے، اور اسی طرح علاقائي ملکوں کے تعلقات کے بارے میں دشمن کی سازشوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ رہبرانقلاب اسلامی نے فلسطین کے بارے میں ایران کے موقف پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ فلسطین کا حل تمام فلسطینی باشندوں سے ریفرنڈم کرانا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ فلسطین کی سرزمیں پوری کی پوری فلسطینی قوم کی ہے

لاہور :پاکستان جہاں اقتدار میں آتے ہی حکمرانوں کے بینک اکاؤنٹ دن دوگنی رات چوگنی بڑھتے جا رہے ہیں اور سیاستدانوں کی دولت شمار میں نہیں آتی وہیں لاطینی امریکی ملک یوراگوئے کے موجودہ 76 سالہ صدر جوزموجیکا کا کل اثاثہ1987ء کے ماڈل کی فوکس ویگن بیٹل کار ہے۔ ان کی اہلیہ کی ملکیت میں دارالحکومت مونٹی ویڈو کے نواح میں ایک فارم ہے جہاں یہ غیرمتنازعہ جوڑا رہائش پذیر ہے۔ صدر جوزموجیکا کورڈانو کا کوئی بینک اکاؤنٹ ہے اور نہ وہ صدارتی محل میں قیام کرتے ہیں بلکہ اپنی ماہانہ تنخواہ8 ہزار پاؤنڈ اسٹرلنگ کا بڑا حصہ بھی وہ خیراتی مقاصد کے لئے عطیہ کردیتے ہیں۔ برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلیگراف اور خبررساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق صدر کورڈانو 1960ء کی دہائی کے شروع میں ایک گوریلا لیڈر رہے۔ 2005-08ء وہ یوراگوئے کے وزیر زراعت، لائیو اسٹاک و فشریز رہے اور مارچ2010ء میں منصب صدارت سنبھالنے سے قبل سینیٹر بھی رہے۔ وہ چار بار گرفتار ہوئے اور 14 سال جیل کاٹی

عدیس ابابا. . . . … . .امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے افریقی ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ لیبیا کے معمر قذافی کی حمایت چھوڑ دیں۔ایتھوپیا کے دارالحکومت عدیس ابابا میں افریقن یونین کے اجلاس خطاب کرتے ہوئے ہلیری کلنٹن نے کہاکہ رکن ممالک معمر قذافی کے سفیروں کو اپنے ملک سے نکال دیں اور لیبیا میں قائم عبوری کونسل کی حمایت کریں ۔انھوں نے کہاکہ رکن ممالک کی جانب سے قذافی کی حمایت چھوڑنے سے لیبیا میں تبدیلی آسکتی ہے۔انھوں نے کہاکہ رکن ممالک جنوبی اور شمالی سوڈان درمیان ایبی جو خطے کے مسئلے کو تشدد کی بجائے مذاکرات سے حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہلیری کلنٹن نے کہاکہ القاعدہ کی ذیلی تنظیم الشبات کا مسلسل خود کش حملے اور شہریوں کو نشانہ بنانا مایوسی کا علامت ہے

صومالیہ کے وزیر داخلہ عبد الشکور شیخ حسن ایک خودکش حملے میں ہلاک ہوگئے ہیں۔ موغادیشو سے موصولہ اطلاعات کے مطابق عین ممکن ہے کہ یہ خودکش حملہ آور ان کی اپنی بھانجی تھی۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق وزیر داخلہ کی یہ بھانجی گزشتہ تین ماہ سے ان کی رہائش گاہ ہی میں مقیم تھی۔ ایک حکومتی عہدیدار کے  مطابق جمعہ کو یہ خودکش دھماکہ اس وقت کیا گیا، جب وزیر داخلہ ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ صومالیہ میں مغرب کی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف سخت گیر موقف کے حامل الشباب باغیوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ حالیہ خودکش حملہ صومالیہ میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران تیسرا خودکش حملہ ہے

امریکہ نے سوڈانی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ جنوبی سوڈان میں تشدد کا سلسلہ فوری طور پر روکے۔ یہ انتباہ ان رپورٹوں کے بعد سامنے آیا، جن کے مطابق شمالی سوڈان کی فوج نے جنوبی حصے کے ایک سرحدی گاؤں پر فضائی بمباری کی۔ رواں سال جنوری میں ہونے والے ریفرنڈم کے تحت جنوبی سوڈان کی اکثریت نے شمال سے علیٰحدگی کے حق میں رائے دی رکھی ہے۔ علیٰحدگی کا یہ عمل9 جولائی کو مکمل ہوگا تاہم اس سے قبل ہی خطے میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ سوڈان کی تقسیم کے بعد ملک کا شمالی حصہ روزانہ کی بنیاد پر پانچ لاکھ بیرل تیل کے 75 فیصد حصے سے محروم ہوجائے گا۔

بولاوایو…د نیا بھر میں خواتین کے مقابلہ حسن منعقد کیے جاتے ہیں تاہم زمبابوبے میں ہر سال بدصورت مردوں کے مقابلے کا انعقاد کیا جاتا ہے۔مسلسل تین سال سے ہونیوالے اس مقابلے میں اس سال15مرد وں نے شرکت کی جن میں سے صرف آٹھ حتمی مقابلے تک پہنچ پائے۔خواتین ججوں پر مشتمل پینل کی زیرِ نگرانی ہونے والا بدصورت مردوں کا یہ مقابلہ زمبابوے کے شہر بولاوایو کے30سالہ نوجوان آسٹن بیونے جیت کر120امریکی ڈالرکی انعامی رقم اور ایک کمبل اپنے نام کرلیا۔

بحرین کےاوقاف کےسربراہ احمدحسین نےاعلان کیاہےکہ اس ملک کےسیکورٹی اہلکاروں نے سعودی فوجیوں کی حمایت ومدد سے گذشتہ دنوں میں شیعہ مسلمانوں کےپینتالیس مذہبی مکانات تباہ کردیئےہيں۔   احمدحسین نےشاہ بحرین حمد بن عیسی آل خلیفہ کےنام ایک خط میں کہاہےکہ سیکورٹی اہلکاروں نےمذہبی مقامات پرحملہ کرکے اٹھائیس مسجدوں کوپوری طرح شہیدکردیاہےجب کہ سات مسجدوں اورآٹھ امامبارگاہوں نیز دوزيارتگاہوں کوشدیدنقصان پہنچایاہے۔  احمد حسین کایہ خط ایسےعالم میں سامنےآیاہےکہ جب بحرین میں آل سعود کےفوجیوں نے شیعہ مسلمانوں کی مسجدوں ، امامبارگاہوں اور زيارتگاہوں کوتباہ کرنااپناطریقہ کاربنالیاہے۔ اوربعض مظاہرین کےگھروں اور وہ مذہبی مقامات پربدترین شکل میں حملہ کرتےہیں۔ بحرینی مخالفین کی یونین کےترجمان عبدالرؤف الشائب نےاعلان کیاہےکہ بحرین میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی فوج داخل ہونےکےبعد سے اب تک اس ملک میں پچاس سےزيادہ مسجدیں اورمذہبی مقامات مسمارکئےجاچکےہيں۔انھوں نےکہاکہ آل خلیفہ حکومت، آل سعود کی بھرپورمدد سےبحرین کوانسانی حقوق کی خلاف ورزی کےسب سےبڑےمرکزمیں تبدیل کردیاہے۔  انگریزی اخبارڈیلی ٹیلی گراف نے بھی ریاض اور لندن کےدرمیان بحرینی عوام کوکچلنےمیں ایک دوسرےکےساتھ تعاون کاراز فاش کرتےہوئےلکھاہےکہ برطانوی فوج، سعودی فورسس کو جو مظاہرین کوکچلنےکےلئےبحرین پہنچی ہے انھیں ٹیننگ دینےمیں ملوث ہے۔  جب سےسعودی فورس، آل خلیفہ کی مدد کےلئےبحرین میں داخل ہوئي ہے، اس وقت سےاس ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اپنےعروج پرہیں۔ شیعہ مسلمانوں کی مسجدوں اورمقدس مقامات کوتباہ کرنا،ان کی توہین کرنا، اورمظاہروں میں شرکت کرنےوالوں کےگھروں پرحملہ کرناگرفتارکئےجانےوالےمظاہرین کوبری طرح تشدد کانشانہ بنانابحرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی واضح مثالیں ہيں۔ابھی حال ہی میں بحرین میں ایک عدالت نےعلی عبداللہ حسن السینقیس اور عبدالعزیزعبداللہ ابراہیم حسین کی گرفتاری کاوارنٹ جاری کیاجس پربحرین میں شدیدردعمل سامنےآیا۔بحرین میں یہ ردعمل اتناشدیدتھاکہ آل خلیفہ بھی وحشت میں مبتلاہوگئي یہاں تک کہ ذرائع ابلاغ نےرپورٹ دی کہ بحرین کےحکام نےاکیس مظاہرین پرمقدمےکی کاروائی روک دی۔ یہ ایسےعالم میں ہےکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نےبحرینی عوام کےقتل عام اور انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیوں کےسبب ، ا س ملک کےحکام پرشدیدتنقید کی ہے۔ لیکن امریکہ اوربرطانیہ جیسےمغربی ممالک نےآل خلیفہ کےجرائم سےچشم پوشی کررکھی ہے اور اس طرح مزید جرائم کےلئےآل خلیفہ کوکھلی چھوٹ دےدی ہے۔

عدیس ابابا:  بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے کہا ہے کہ مغربی ایشیا اور افریقا میں تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے ۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق عدیس ابابا پہنچنے پر گفتگو کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نے کہا کہ عوام کو اپنی قسمت کے فیصلے کا حق حاصل ہے تاہم کوئی بھی عالمی اقدام اٹھاتے ہوئے انہیں اقوام متحدہ کے فریم ورک کو ہر صورت مدنظر رکھنا چاہیے ۔ واضح رہے کہ بھارتی وزیراعظم کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مصر لیبیا اور یمن جیسے ممالک میں عوام نے اپنی حکومتوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے

جنوبی ایشیا کے غریب ملک بنگلہ دیش نے میں غذائی قلت کے خطرے سے نمٹنے کے لیے افریقہ میں ہزاروں ہیکٹر زرعی زمیں ٹھیکے پر حاصل کر لی ہے  بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر فرہاد الاسلام نے کہا ہے کہ دو بنگلہ دیشی کمپنیوں نے یوگنڈا اور تنزانیہ میں 90 ہزار ایکڑ زرعی زمیں ٹھیکے پر لی ہے۔ اس زمیں پر مختلف قسم کی فصلیں کاشت کی جائیں گی، تاکہ بنگلہ دیش میں خوراک کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک تیسری بنگلہ دیشی کمپنی بھی رواں ہفتے تنزانیہ کے ساتھ تقریباﹰ 25 ہزار ایکڑ زرعی زمین ٹھیکے پر حاصل کرنے کا معاہدہ کرے گی۔  خبر رساں ادرے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے فرہاد الاسلام کا کہنا تھا، ’’حکومت افریقہ میں زرعی زمین ٹھیکے پر لینے والی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اس کا مقصد وہاں کے کھیتوں میں پیدا ہونے والی اجناس کو بنگلہ دیش لانا ہے تاکہ یہاں خوراک کی قلت کو پورا کیا جا سکے  بنگلہ دیش کی تقریبا 50 ملین آبادی کو چاولوں اور گندم کی بڑھتی ہوئے قیمتوں کا سامنا ہے۔ سرکاری اعداوشمار کے مطابق گندم اور چاولوں کی قیمت میں تقریبا ہر سال 50 فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔  چند عشرے قبل بنگلہ دیش چاولوں کی پیداوار میں خود کفیل ہوتا تھا لیکن وہاں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور صنعتی علاقوں میں پھیلاؤ کے باعث وہاں زرعی رقبے میں واضح کمی آئی ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں بنگلہ دیش چاول اور گندم درآمد کرنے والے ایک بڑے ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔ بنگلہ دیش کے مرکزی بینک کے اعدادوشمار کے مطابق سن 2010 کے آخری سات ماہ میں 882 ملین ڈالر کا اناج درآمد کیا گیا۔  پاکستان اور بنگلہ دیش کا ہمسایہ ملک بھارت بھی افریقہ کے مختلف ممالک کے زرعی شعبے میں بھاری سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتا ہے۔ آئندہ ہفتے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ پانچ روزہ دورے پر افریقہ روانہ ہوں گے۔  منگل کو بھارتی وزارت خارجہ کے ایک سینئر عہدیدار ویویک کاٹجو کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا،’ہم زراعت کے شعبے میں نئی سرمایہ کاری کے لیے افریقہ کے ساتھ تعلقات کو بڑھانے میں مصروف عمل ہیں‘۔  گزشتہ برس بھی بھارتی سرمایہ کاروں نے افریقی ممالک کا دورہ کیا تھا تاکہ وہاں لمبے عرصے کے لیے زرعی زمیں ٹھیکے پر لی جا سکے۔ فرہاد الاسلام کا کہنا ہے کہ افریقی ممالک کی طرف سے یہ ایک بہترین پیشکش ہے کہ وہاں کھتی باڑی کے لیے زمین ٹھیکے پر لی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کے تحت 80 فیصد خوراک وہ بنگلہ دیش لا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پروگرام کے تحت قریب 25000  ملازمتیں نکلیں گی، جن میں سے 90 فیصد ملازمتیں یوگنڈا کے لوگوں کو دی جائیں  گی